بابر اعوان نے بڑی خوشخبری دے دی عمران خان خود الیکشن لڑیں گے اور لیڈ بھی کریں گے
#PTIOnlinePk#ImranKhan#PTIImranKhan#Ik#Pakistan#Babr#PML#PMLN#PTI#Pakistan Tehreek-e-Insaf#Insaf#Tehreek#News#NewsPTI#NewsPTIOnlinePk#TikTok#PTITikTok
الیکشن سے قبل عمران خان کو تحریک انصاف کا نیا سربراہ نامزد کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے پی ٹی آئی چیئرمین کے لیے بیرسٹر گوہر علی خان کی نامزدگی اور انٹرا پارٹی الیکشنز سے دستبرداری کے فیصلے نے گذشتہ چند روز سے اس حوالے سے موجود ابہام کو دور کر دیا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان اس وقت توشہ خانہ کیس میں اسلام آباد کی ضلعی عدالت کی جانب سے مجرم قرار پانے کے بعد تین سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں اور یہ فیصلہ ان کی جانب سے اپنی وکلا ٹیم میں سے گذشتہ روز جیل میں ہونے والی ملاقات کے بعد کیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے گذشتہ جمعرات کو پی ٹی آئی کے گذشتہ برس ہونے والے انٹرا پارٹی الیکشنز کے نتائج کالعدم قرار دیتے ہوئے جماعت سے 20 روز کے اندر دوبارہ انتخابات کروانے کا کہا تھا اور خبردار کیا تھا کہ ایسا نہ کرنے کی صورت جماعت سے بلے کا نشان واپس لے لیا جائے گا۔
آج پی ٹی آئی سینیٹرعلی ظفر نے اعلان کیا کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات دو دسمبر بروز سنیچر منعقد ہوں گے اور پی ٹی آئی چیئرمین نے اس سے اس لیے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ ’وہ نہیں چاہتے کہ الیکشن کمیشن کو کوئی غیر قانونی فیصلہ کرنے کا کسی قسم کا موقع دیا جائے۔‘
تاہم گذشتہ روز جب تحریکِ انصاف کے وکلا کی ایک ٹیم جب ان سے جیل میں ملاقات کر کے واپس آئی تو پی ٹی آئی کے رہنما اور وکیل شیر افضل مروت میڈیا کے سامنے آئے تو اور بتایا کہ فیصلہ یہ ہوا ہے کہ ’عمران خان نااہلی کی وجہ سے آئینی اور قانونی طور پر پارٹی کے چیئرمین کا الیکشن نہیں لڑ سکتے ہیں۔
’لہٰذا خان صاحب نے خود فیصلہ کیا ہے کہ وہ خود چیئرمین تحریک انصاف کے لیے نہیں لڑیں گے اور اتفاق رائے سے یہ فیصلہ ہوا ہے کہ جونہی عدالت کی طرف سے نااہلی کا فیصلہ ختم ہو گا تو پھر انھیں چیئرمین کے لیے لایا جائے گا۔‘
انھوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے بیرسٹر گوہر علی خان کو اس عہدے کے لیے نامزد کیا جائے گا تاہم گذشتہ روز تو پی ٹی آئی نے اس حوالے سے تردید جاری کی تھی اور آج پی ٹی آئی کے لیے کچھ مقدمات میں وکیل پیش ہونے والے لطیف کھوسہ نے بھی اس بارے میں ابہام میں اضافہ کیا تھا۔
تاہم دوپہر کو سینیٹر علی ظفر نے بیرسٹر گوہر علی خان اور ترجمان پی ٹی آئی رؤف حسن کے ہمراہ ان تمام سوالات پر وضاحت پیش کر دی ہے۔
عمران خان کو یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی، نئے چیئرمین کی تعیناتی کا مطلب عمران خان کا پی ٹی آئی کے معاملات سے علیحدگی ہے اور کیا عمران خان کی پی ٹی آئی کی قیادت میں واپسی ممکن ہے؟ اس فیصلے کی وجوہات کیا ہیں اور یہ عام کارکن کے لیے کس حد قابل قبول ہو گا؟ ان سوالات کا جواب بھی تحریک انصاف کے رہنما خود ہی دیتے ہیں۔
عمران خان کو یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سینیٹر علی ظفر کے مطابق عمران خان نے خود چیئرمین کا انتخابات نہ لڑنے کا فیصلہ توشہ خانہ کیس میں نااہلی کے فیصلے کے تناظر میں کیا ہے۔
علی ظفر نے کہا کہ ان کی وکلا کی ٹیم کے ہمراہ عمران خان سے منگل کو اڈیالہ جیل کے اندر ملاقات ہوئی تھی۔ علی ظفر کے مطابق اس ’ملاقات میں عمران خان سے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر مشاورت ہوئی اور پھر یہ فیصلہ کیا گیا کہ انٹرا پارٹی الیکشن کروا دینا چاہیے۔‘
علی ظفر نے کہا کہ انھوں نے عمران خان کو بتایا کہ ’الیکشن کمیشن یہ کوشش کر رہا ہے کہ کسی نہ کسی طرح بلے کا نشان ہم سے چھین لیا جائے۔‘
علی ظفر کے مطابق عمران خان نے ان کی بات سے اتفاق کیا اور اس کے بعد پھر ’انٹرا پارٹی انتخابات کے لیے پینلز سے متعلق مشاورت ہوئی اور اس پر تفصیلی بحث ہوئی۔‘
علی ظفر نے بتایا کہ یہ فیصلہ ہوا ہے کہ ’اگر یہ قانونی رائے آتی ہے کہ الیکشن کمیشن عمران خان کی ممکنہ نااہلی کے باعث چیئرمین منتخب ہونے پر پھر سے ان انتخابات پر اعتراض عائد کر سکتا ہے تو پھر بے شک عمران خان ان انٹرا پارٹی انتخابات میں حصہ نہ لیں۔‘
جب عمران خان نے خود ان انتخابات سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کر لیا تو ظاہر ہے انھیں کسی اور کو انٹرا پارٹی الیکشن سے قبل جماعت کے سربراہ کے لیے نامزد کرنا تھا۔
نئے چیئرمین کی تعیناتی کا مطلب عمران خان کا پی ٹی آئی کے معاملات سے علیحدگی ہے؟
ایڈووکیٹ علی ظفر کے مطابق توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دیا گیا تھا اور اس وقت حالات ایسے ہیں کہ پارٹی کو انصاف کی توقع بھی نہیں۔
ان کی رائے میں اس فیصلے کے ہوتے ہوئے عمران خان پارٹی کے چیئرمین بھی نہیں بن سکتے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی نااہل ہوئے تھے جس کے بعد عدالتوں نے انھیں کسی بھی عوامی عہدے پر رہنے کا اختیار نہیں دیا تھا۔
علی ظفر کے مطابق توشہ خانہ کا فیصلہ جب تک ختم نہیں ہوتا تو اس وقت تک ہماری یہی پوزیشن رہے گی (یعنی عمران خان پارٹی کی سربراہی نہیں کر سکتے)۔
علی ظفر نے کہا کہ ’اپنے آئین اور قانون کے مطابق ہم الیکشن لڑیں گے، یہ ایک عارضی فیز ہے۔‘
علی ظفر نے عمران خان کی پارٹی میں پوزیشن سے متعلق وضاحت کی کہ ’عمران خان پارٹی کے سربراہ رہیں گے۔ وہ پارٹی کے سربراہ ہیں، وہی تحریک انصاف کی سرپرستی کرتے رہیں گے، پی ٹی آئی ان کے سوا کچھ نہیں۔ نامزد نام کے ذریعے تکنیکی مرحلہ پورا کر رہے ہیں۔‘
علی ظفر نے کہا کہ ’ہم نے یہ ایک حکمت عملی بنائی ہے۔ یہ ایک پلان بی ہے۔ اسے ہم نے کافی دیر سے اختیار کیا ہوا ہے اور اس حوالے سے کوئی کنفیوژن نہیں ہے۔‘
Ещё видео!