#15august #Jangeazadi#musalman #darululoomdeoband #islam #hindustan #india #15agust2023#Arifmeel #india #islam #hindifacts #shortsfeed #shortsvideo #youtubeshorts #trending #dubai #tajmahal #travel
©Copyright Disclaimer Under Section 107 of the Copyright Act 1976, allowance is made for 'Fair Use' for purposes such as criticism, comment, news reporting, teaching, scholarship, and research, Fair use is a permitted by copyright statute that might otherwise be infringing, Non-profit, educational or personal use tips the balance in favor of fair use
please subscribe kare Mazeed Islamic video's ke liye 🥰
video subtitles/lyrics 👇
دارالعلوم دیوبند کا ملک کی جنگ آزادی میں کردار... مولانا ارشد مدنی
ہندوستان کے بے شمار لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کی پہلی آزادی کی لڑائی 1857ء میں لڑی گئی تھی، لیکن یہ بات اپنی تاریخ اور اپنے بزرگوں کی قربانیاں
فکر و خیالات
دارالعلوم دیوبند کا ملک کی جنگ آزادی میں کردار... مولانا ارشد مدنی
ہندوستان کے بے شمار لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کی پہلی آزادی کی لڑائی 1857ء میں لڑی گئی تھی، لیکن یہ بات اپنی تاریخ اور اپنے بزرگوں کی قربانیوں سے لاعلمی پر مبنی ہے۔
آج ہم یوم جمہوریہ کی 75ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ ہر طرف جشن اور خوشی کا ماحول ہے۔ لیکن یہی وہ موقع ہے کہ جب ہم اپنے ان اکابرین کو بھی یاد کریں جنہوں نے اس دن کے لئے عظیم قربانیاں دیں، یہاں تک کہ آزادی کے لئے ان میں سے بہت سے ہنستے ہوئے پھانسیوں پر جھول گئے۔ آزادی کی اس طویل جدوجہد اور سیکولر دستور سازی میں دارالعلوم دیوبند اور خاص طور پر جمعیۃ علماء ہند کا جو قائدانہ کردار رہا ہے وہ ہر اعتبار سے تاریخی ہے۔ صدیوں کی غلامی کے بعد آزاد ہوئی ایک عظیم مملکت کو اتحاد کی ڈور میں باندھ کر جمہوریت کے ستون پر اسے کھڑا کرنے میں دوسرے برادران وطن کے مقابلے ہمارے ملی قائدین کا کلیدی کردار تھا۔ ماضی کے بطن سے ہی تاریخ پیدا ہوتی ہے۔ کسی بھی ملک اور قوم کے لئے اس کی تاریخ تحریک اور توانائی کا سرچشمہ ہوتی ہے مگر بدقسمتی سے وطن عزیز میں ایسا نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے ہی ایک مخصوص ذہنیت کے لوگوں نے تاریخ کو مسخ کرنے کے لئے جس طرح کا پروپیگنڈہ کیا اس سے ہماری تاریخ مفروضوں اور فرضی داستانوں کا مجموعہ سی بن کر رہ گئی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک کی جنگ آزادی میں علماء کا جو روشن کردار رہا ہے اسے تقریباً فراموش کیا جا چکا ہے۔ جب کہ تاریخی سچائی یہ ہے کہ ہندوستان کی آزاد ی کی تحریک علماء اور مسلمانوں نے شروع کی تھی اور یہاں کے عوام کو غلامی کا احساس اس وقت کرایا جب اس بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں رہا تھا۔ ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے علم بغاوت علماء نے ہی بلند کیا تھا اور جنگ آزادی کا صور بھی انہوں نے ہی پھونکا تھا۔
ہندوستان کے بے شمار لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کی پہلی آزادی کی لڑائی 1857ء میں لڑی گئی تھی، لیکن یہ بات اپنی تاریخ اور اپنے بزرگوں کی قربانیوں سے لاعلمی پر مبنی ہے۔ آزادی کی تاریخ 1857ء سے نہیں بلکہ 1799ء میں اس وقت شروع ہوئی جب سلطان ٹیپو شہیدؒ نے سرنگاپٹم میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا تھا، جس وقت ان کے خون میں لتھڑی ہوئی لاش پر انگریز فوجی نے کھڑے ہو کر یہ بات کہی تھی کہ ’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے۔‘‘ اس کے بعد ہی انگریز یہ کہنے کی ہمت کر پائے کہ ’’اب کوئی طاقت ہمارا مقابلہ کرنے والی، ہمارے پنجے میں پنجہ ڈالنے والی نہیں ہے‘‘، اور پھر انہوں نے عملی طور پر چھوٹے چھوٹے نوابوں اور راجاؤں کو شکست دے کر ان کو سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کر دیا۔
شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کو بڑی بڑی تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں، انھیں زہر دے دیا گیا، ان کی جائیداد کو قرق کر لیا گیا، ان کی آنکھوں کی بینائی اس زہر سے جاتی رہی، ان کو دہلی شہر سے در بدر کر دیا گیا۔ ان تمام سخت ترین حالات میں بھی انھوں نے اپنی موت سے پہلے دو روحانی شاگرد پیدا کر دیئے۔ ایک حضرت سیّد احمد شہید رائے بریلویؒ، اور دوسرے شاہ اسماعیل شہیدؒ۔ ان لوگوں نے پورے ملک کے دورے کئے اور مسلمانوں سے جہاد کی بیعت لی اور اس بات کا عہد لیا کہ وہ مل کر ملک کی آزادی کے لیے اپنی جان قربان کر دیں گے۔
اس کے بعد بالاکوٹ کے میدان میں ان دونوں بزرگوں کی قیادت میں وطن کی آزادی کے لئے جنگ لڑی گئی جس میں ہزاروں مسلمان شہید ہوئے آزادیٔ وطن کے لئے جنگ آزادی کی پہلی جنگ تھی جو دوسری آزادی کی جدوجہد (1857) کی بنیاد بنا۔ اس جنگ سے ناکامی کے بعد جو لوگ واپس ہوئے انہوں نے ایک بار پھر اِکائیوں کو جمع کیا اور افراد تیار کئے، اور چھبیس سال کی محنت کے بعد 1857 میں دوبارہ آزادیٔ وطن کے لئے جہاد شروع ہوا، جس میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک ہوئے لیکن تاریخی سچائی یہ ہے کہ اس میں مسلمانوں کی غالب اکثریت تھی۔
آزادیٔ وطن کے لئے یہ دوسری جنگ بھی ناکام ہوئی۔ اس کی پاداش میں علماء کو گرفتار بھی کیا گیا اور کچھ علماء نے اپنے آپ کو نظر بند کر لیا۔ جب یہ علماء تین چار سال کے بعد جیل سے باہر نکلے اور عام معافی کا اعلان ہوا تو انھوں نے بڑی عجیب و غریب چیز دیکھی کہ وہ یتیم جن کے باپ جامِ شہادت نوش کر گئے، انگریز کی دشمنی کی وجہ سے ان کے یتیم بچے سڑکوں پر ہیں، ان کے سرپر کوئی ہاتھ رکھنے والا نہیں ہے جس کا فائدہ اٹھاکر انگریزوں نے فکری محاذ پر بھی اپنی لڑائی تیز کر دی۔ چنانچہ کرسچن اسکول، عیسائی پوپ اور چرچ کے لوگ باہر نکل کر ان یتیموں کا ہاتھ پکڑتے اور کہتے کہ ہمارے ساتھ چلو ہم تم کو کھانا، رہائش اور تعلیم مفت دیں گے۔ مقصد ذہنی اعتبار سے ان کو انگریز بنانا تھا۔ یہ وہ بچے تھے جن کے آباء و اجداد نے انگریز دشمنی میں جدوجہد آزادی میں جامِ شہادت نوش کیا تھا، لیکن اب انہیں کی اولاد انگریزوں کے ہاتھ میں تھی اور وہ ان کو فکری اعتبار سے اپنا غلام بنانا چاہتے تھے۔ ان حالات کو دیکھ کر علماء کرام سر جوڑ کر بیٹھے ا
Ещё видео!