یک عمل کرنے کی توفیق ‘ اس کی قبولیت اور اس پر اجر و ثواب
نیک اعمال ایک مسلمان کارأس المال ہیں‘ ان ہی کیلئے وہ پیدا ہوا‘ ان ہی کا حساب ہوگا اور ان ہی پر اس کی دنیا کی پاکیزہ زندگی اور آخرت میں جنت کی زندگی کا دارومدار ہے ۔ اللہ اور رسول اللہ ﷺ نے نیک اعمال کی طرف رغبت دلائی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی نیک اعمال قبول کرنے اور ان پر دنیا و آخرت میں بہترین اجر و ثواب دینے کا وعدہ کیا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
وَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَـٰئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ نَقِيرًا ﴿١٢٤﴾ سورة النساء
’’ اور جو بھی نیک کام کرے گا چاہے وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ صاحب ایمان بھی ہو- ان سب کو جنّت میں داخل کیا جائے گا اور کھجور کی گٹھلی کے شگاف برابر بھی ان کا حق نہ مارا جائے گا ‘‘۔(١٢٤) سورة النساء
لہذا مومن بندے کو نیک اعمال کرنے کا بے حد حریص ہونا چاہئے اور ان پر اللہ سے اجر و ثواب کا امید رکھنا چاہئے اور شروط‘ آداب اور حقوق کا لحاظ رکھتے ہوئے نیک عمل صحیح طریقے سے مکمل کرنا چاہئے۔
جیسا کہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’ اللہ تعالٰی کو یہ بات پسند ہے کہ جب عامل عمل کرے تو مضبوط اور مکمل کرے‘‘۔( صحیح الجمامع)
ہر مسلمان نیک اعمال کرنا چاہتا ہے لیکن ہر کسی کو اس کی توفیق نہیں ہوتی کیونکہ توفیق تو اللہ تعالٰی کی طرف سے ملتی ہے۔ نیک عمل کی توفیق انسان کی دل کی تڑپ‘ دعائیں اور بعض شرائط پوری کرنے پر ملتی ہے۔ پھر نیک عمل انجام دینے کے بعد اس کی قبولیت اور حفاظت کے بھی بعض شروط ہیں۔ ان سب کا جاننا ایک مسلمان کیلئے بے حد ضروری ہے۔
اگرچہ مضمون کافی طویل ہے لیکن ذیل میں پہلے ان شروط کی فہرست دی گئی ہے اور پھر اختصار کے ساتھ انہیں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اللہ تعالٰی ہماری اس عمل کو قبول فرمائے۔ آمین۔
اعمالِ صالحہ کی شرط نمبر(5) ۔۔ اتباعِ سنت:
عمل اگر سنت کے مطابق نہ ہو تو وہ کھوٹہ سکہ یا گھٹیا مال ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں۔ قرآن و احادیث اتباع سنت کے احکام سے بھری پڑی ہیں۔ اللہ تعالٰی سے محبت کرنے والوں کیلئے ضروری ہے کہ نبی ﷺ کی اتباع کریں۔
فرمان باری تعالٰی ہے:
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (۳۱) سورة آل عمران
’’(آپ ﷺ) فرما دیں: اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لئے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ جس نے بھی کوئی ایسا عمل کیا جو ہمارے طریقے پر نہیں تو وہ عمل مردود ہے‘‘۔
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ نبی کریم ﷺ کی سنت بھی نوح علیہ السلام کی کشتی کی مانند ہے‘ جو اس میں سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جو پیچھے رہا وہ غرق ہوا‘‘۔
سنت کے مطابق کیا گیا عمل قبول ہونے کی بے شمار دلائل ہیں ‘ جنکی تفصیل یہاں ممکن نہیں۔
اعمالِ صالحہ کی شرط نمبر(6) ۔۔ احتساب فی العمل:
اس کا معنی یہ ہے کہ عملِ صالح اللہ تعالٰی سے اجر کی امید کی جائے گو یا کہ یہ لفظ حساب سے ماخوذ ہے۔ احادیث نبویہ میں احتساب کا ذکر کثرت سے آتا ہے ہے جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’جس نے ایمان و احتساب ( ایماناً و احتساباً) کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اس کے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں، جو شخص رمضان کی راتوں کا قیام کرے ایمان و احتساب کے ساتھ ، تو اس کے بھی تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اور جو شخص لیلتہ القدر کا قیام کرے ایمان اور احتساب کے ساتھ اس کے بھی تمام گزشتہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں‘‘۔ (بخاری)
’’ احتساباً ‘‘ ۔۔ کا معنی ’’ اللہ تعالٰی کی رضا او ر اس کے ثواب کی طلب میں کوئی عمل کرنا‘‘۔ اعمال صالحہ اور مکروہات میں احتساب یہ ہے کہ اس پر اجر کو طلب کرنا اور برضا و تسلیم اور صبر کے ساتھ اُسے حاصل کرنا۔
اس معنی میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ’’ لوگو! اپنے اعمال پر اللہ رب العزت سے اجر کی امید رکھو‘ جس نے اپنے عمل پر اللہ سے اجر کی امید رکھی اس کی عمل اور امید دونوں کا ثواب اس کے نامۂ اعمال میں لکھ دیا جاتا ہے‘‘۔
ایک حدیث قدسی میں ہے کہ ’’ میں نے جسکی دونوں آنکھیں سلب کرلیں اور پھر اس نے صبر کیا اور اجر کی امید رکھی تو میں انکے عوض اُسے جنت عطا کروں گا‘‘۔
ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں: ’’ مسلمان پر تعجب ہےکہ جب اسے خیر پہنچے تو اللہ کی تعریف کرتا ہے اور جب اسے مصیبت پہنچے تو صبر کرتا ہے اور اجر کی امید رکھتا ہے‘ مومن کو ہر چیز پر اجر سے نوازا جاتا ہے حتٰی کہ اس لقمے پر بھی جسے وہ اپنے منہ کی طرف اٹھاتا ہے‘‘۔( اسے احمد نے قوی سند کے ساتھ روایت کیا ہے)۔
ایک شخص نے آپ ﷺ سے سوال کیا مجھے بتلائیے کہ’’ اگر میں اللہ کی راہ میں قتل کر دیا جاؤں جبکہ میں صبر اور اجر کی امید کروں اور میدان جہاد میں دشمن کی طرف رُخ کرکے جوانمردی سے جان دوں ‘ نہ کہ پیٹھ پھیر کر بھاگتے ہوئے تو کیا میری خطائیں معاف کر دی جائیں گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جی ہاں! سوائے قرض کے‘‘ ۔۔۔( رواہ احمد)
لہذا یہ بات ثابت ہوئی کہ اعمال صالحہ اور وہ آزمائش جو گناہوں کا کفارہ بنتی ہیں ان کیلئے شرط ہے کہ اجر کی امید رکھی جائے۔ مصیبت پر اجر کی امید نہ رکھنا گویا دوسری مصیبت ہے کہ یہ اجر سے محرومی ہے‘ کیونکہ کسی بھی عمل کے صالح ہونے کیلئے احتساب شرط ہے بصورت دیگر وہ عمل عبادت کے بجائے عادت شمار ہوگا۔
لہذا جو لوگ یہ بات کہتے ہیں کہ ہم جنت کیلئے عمل نہیں کرتے‘ وہ اپنی نیک عمل میں احتساب کی شرط اور سنت کو پوری نہیں کرتے جو کہ بہت بڑی گمراہی ہے۔
احتساب کی مثال یوں ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی مطلوب کام پر ایک انتہائی قیمتی انعام مقرر کرتا ہے اب جو شخص اس انعام میں رغبت رکھے وہ اس کا محبوب ہوگا اور جو انعام سے بے توجہی کرے وہ اس انعام مقرر کرنے والے کو ناپسند ہوگا۔
ایمان کے بغیر نیک عمل قبول نہیں ہوتا
Теги
ایمان کے بغیر نیک عمل قبول نہیں ہوتااللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَاے اللہ میری مدد کر اپنے ذکر و شکر کرنے پر اور اچھی طرح عبادت کرنے پراور نیک عمل کرنے کے بعد اس کی قبولیت کی دعا کرنا بھی ضروری ہےاللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اعمالِ صالحہ کا اہتمام کرنے کی توفیق عطا فرمائےانہیں قبول فرمائے ‘ انہیں ہماری دنیا اور آخرت کیلئے ذخیرہ بنائےاور ان پر ہمیں دنیا اور آخرت میں بہترین اجر سے نوازے۔ آمین یا رب العالمین