بیان مفتی تقی عثمانی حفظہ اللہ
چودہ سو برس سے زیادہ زمانہ گذرا کہ رب العالمین نے ظلمت کدہ عالم کو نور بخشنے والا وہ پیغمبر بھیجا جس کے ہاتھ میں سیادت رسل کا علم اور سرپرخاتمیت انبیاء کا تاج تھا۔ اللہ جل جلالہ نے اپنے پیغمبر کو ایسی شریعت کاملہ عطا فرمائی کہ اس کے بعد قیامت تک نوع انسانی کے لیے کسی مذہبی قانون اور نئی شریعت کی ضرورت درپیش نہ ہوگی۔
مگر مسلمانوں نے اس شریعت مطہرہ پرکاربند ہونے کی بجائے ایسے رسوم وقیود اپنالیے جو ہندؤوں اور غیرمسلم اقوام سے درآمد شدہ ہیں جومسلمانوں میں غیرمسلموں کے ساتھ میل جول اوراسلامی تعلیم کے فقدان کے سبب پیدا ہوگئے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ عام سادہ لوح مسلمان ان باطل رسوم کو اسلام کا نام دے رہے ہیں اور اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ یہ دین ہے۔!!
افسوس ان حضرات پر ہے جوبدعات و رسوم کی حقیقت سے آگاہی کے باوجود محض دنیوی اغراض اور عاجلانہ مقاصد کے حصول اور سیم وزر کی لالچ میں بدعتوں وجاہلانہ روایتوں کو سنت کا نام دے کر عوام کو تاریکی کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں؛ بلکہ ان بدعتوں و خرافات کو سنت ثابت کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں۔
آج کل ہمارے معاشرے میں بدعات و خرافات کارواج ہے، باطل نظریات اور غلط عقائد وافکار کی حکمرانی ہے، اہل باطل ان بدعتوں پر دین کا لیبل چسپاں کرکے عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں اور عوام اس پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں، رفتہ رفتہ وہ بدعتیں پھیل جاتی ہیں اور معاشرے میں اس کی جڑیں مضبوط ہوجاتی ہیں۔ ان بدعتوں میں سرفہرست ”عیدمیلاد النبی“ ہے، جسے معاشرے کے اکثر افراد دین تصور کرتے ہیں اور عبادت سمجھ کر منائی جاتی ہے، جلوس نکالے جاتے ہیں، جلسوں کا اہتمام کیاجاتا ہے، محفل میلاد منعقد کی جاتی ہے
یہ ایک سچائی ہے کہ اسلام میں حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کا مقام انتہائی اونچا ہے، کوئی دوسرا وہاں تک رسائی نہیں حاصل کرسکتا، نیز حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کے حالات سے مسلمانوں کو آگاہ کرنا اسلام کا اہم ترین فریضہ ہے اوراس میں مسلمانوں کی کامیابی کا راز مضمر ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کی ولادت خوشی کا باعث ہے۔ مسلمانوں کے دلوں میں حضور صلى الله عليه وسلم کی پیدائش کی خوشی ہونا فطری اور طبعی بات ہے؛ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حضور صلى الله عليه وسلم کی ولادت کی خوشی میں بدعات وخرافات کا سلسلہ شروع کردیا جائے جیساکہ آج کل کیاجاتا ہے۔ آں حضور صلى الله عليه وسلم نے صاف ارشاد فرمایا: تم پر میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرنا لازم ہے، ان کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور نئی نئی باتوں سے دور رہو؛ اِس لیے کہ دین میں ہر نئی بات (جس کا حکم نہ دیاگیا ہو) بدعت ہے۔ (مستدرک حاکم، ج:۱، ص:۹۶)
اس مروّجہ میلاد کا اسلام میں کہیں ثبوت نہیں ہے؛ بلکہ یہ مروّجہ میلاد ساتویں صدی ہجری کی پیداوار ہے۔ پوری چھ صدی تک اِس بدعت کا مسلمانوں میں کہیں رواج نہ تھا؛ نہ کسی صحابیرضى الله تعالى عنه نے، نہ تابعی رحمة الله عليهنے، نہ تبع تابعین رحمة الله عليه نے عید میلاد نبی منائی، نہ کسی محدث نے، نہ مفسر نے، نہ فقیہ نے؛ بلکہ سب سے پہلے میلاد منانے والی شخصیت موصل کے علاقے اربل کا ظالم، ستم شعار اور فضول خرچ بادشاہ ملک مظفرالدین ہے۔ ۶۰۴ھ میں سب سے پہلے اس کے حکم سے محفل میلاد منائی گئی۔ (دول الاسلام، ج:۲، ص:۱۰۴) امام احمد بن محمد مصری اپنی کتاب ”القول المعتمد“ میں لکھتے ہیں:
اس ظالم اورمسرف بادشاہ (ملک مظفرالدین) نے اپنے زمانے کے علماء کو حکم دیاکہ وہ اپنے اجتہاد پر عمل کریں اور اس میں کسی غیر کے مذہب کا اتباع نہ کریں تو اس وقت کے وہ علما جو اپنے دنیوی اغراض ومقاصد کی سرتوڑ کوششیں کررہے تھے اُن کی طرف مائل ہوئے، جب اُنھیں موقع ملا تو ربیع الاوّل کے مہینے میں عیدمیلاد النبی منانا شروع کیا۔ مسلمانوں میں سب سے پہلے عیدمیلادالنبی منانے والا شخص ملک مظفرالدین ہے جوموصل کے علاقے اربل کا بادشاہ تھا۔“
علامہ انور شاہ کشمیری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: یہ شخص ہر سال میلاد پر لاکھوں روپیہ خرچ کرتا تھا اس طرح اُس نے رعایاکے دلوں کو اپنی طرف مائل کرنا شروع کیا اوراس کے لیے ملک وقوم کی رقم کو محفل میلاد پر خرچ کرنا شروع کیا اوراس بہانے اپنی بادشاہت مضبوط کرتا رہا اور ملک وقوم کی رقم بے سود صرف کرتا رہا۔(فیض الباری، ج:۲، ص:۳۱۹)
علامہ ذہبی رحمة الله عليه رقم طراز ہیں: اس کی فضول خرچی اور اسراف کی حالت یہ تھی کہ وہ ہر سال میلادالنبی پر تقریباً تین لاکھ روپے خرچ کیا کرتا تھا۔ (دول الاسلام، ج:۲،ص:۱۰۳)
ذرا اُس باطل پرست اور کج فکر کی حالت بھی سن لیجئے جس نے محفل میلاد کے جواز پر دلائل اکٹھے کیے اور بادشاہ کو اس محفل کے انعقاد کے جواز کا راستہ بتایا اس کا نام ابوالخطاب عمرو بن دحیہ تھا۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة الله عليه اُس شخص کے بارے میں فرماتے ہیں: وہ شخص ائمہ کی شان میں گستاخی کیا کرتاتھا، زبان دراز، بے وقوف اور متکبر تھا اور دینی امور میں سست اور بے پرواہ تھا۔ (لسان المیزان،ج:۴،ص:۲۹۶)
یہ تو میلاد کی ابتدائی تاریخ اور اُس کے موجد پر بحث تھی اب آئیے! علماے متقدمین ومتأخرین اس محفل میلاد کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں۔
علامہ عبدالرحمن مغربی رحمة الله عليه لکھتے ہیں: میلاد منانا بدعت ہے؛ اِس لیے کہ اِس کو حضور صلى الله عليه وسلم نے کیا ہے نہ اِس کے کرنے کو کہا ہے۔ خلفائے کرام نے میلاد منائی ہے اورنہ ائمہ نے۔ (الشریعة الالٰہیہ بحوالہ حقیقت میلاد،ص:۴۱)
