Waseem akram ul qadri
Mufti waseem akram ul qadri
Qari waseem akram ul qadri
Imam Bukhari ka khwab,
امام بخاری کا خواب اور اس کی تعبیر,
#khawabnama
#Imambukhari
#بخاری
امام بخاری مشہور ترین محدث اور حدیث کی سب سے معروف کتاب صحیح بخاری کے مولف ہیں، محمد بن اسماعيل بخاری (19 جولائی 810 - 1 ستمبر 870) بخارا میں پیدا ہوئے گو ان کے والد بھی ایک محدث تھے اور امام مالک کے شاگرد تھے مگر احادیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانچ پڑتال، پھر ان کی جمع و ترتیب پر آپ کی مساعی جمیلہ کو آنے والی تمام مسلمان نسلیں خراج تحسین پیش کرتی رہیں گی۔ آپ کا ظہور پر سرور عین اس قرآنی پیش گوئی کے مطابق ہوا جو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ جمعہ میں فرمائی تھی۔
واخرین منہم لما یلحقوا بہم وھو العزیز الحکیم (سورہ الجمعہ 3)یعنی زمانہ رسالت کے بعد کچھ اور لوگ بھی وجود میں آئیں گے جو علوم کتاب وحکمت کے حامل ہوں گے حضرت امام بخاری یقینا ان ہی پاک نفوس کے سرخیل ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا کہ آل فارس میں سے کچھہ ایسے لوگ پیدا ہوں گے کہ اگر دینی علوم ثریا ستارے پر ہوں گے تو وہاں سے بھی وہ ان کو ڈھونڈ نکالیں گے۔ امام بخاری کا درجہ احادیث کو چھان پھٹک کر ترتیب دینے میں اتنا اونچا ہے کہ بلا اختلاف الجامع الصحیح یعنی صحیح بخاری شریف کا درجہ صحت میں قرآن پاک کے بعد پہلا ہے۔
امام بخاری کا نام محمد، کنیت ابو عبد اللہ ہے۔ والد اسماعیل بن ابراہیم بن ابراہیم بن مغیرہ ہیں۔ امام بخاری کے پردادا مغیرہ حاکم بخارا امام جعفی کے ہاتھ مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔ امام بخاری کی ولادت جمعہ 13 شوال المکرم 194ھ بمطابق 19 جولائی 810ء کو بخارا شہر میں بعد از نمازِ جمعہ کو ہوئی۔
امام بخاری کا سلسلہ نسب یہ ہے : ابو عبد اللہ محمد (امام بخاری) بن اسما عیل بن ابراہیم بن مغیرہ بردزبہ البخاری الجعفی
آپ کے والد ماجد حضرت العلام مولانا اسماعیل صاحب اکابر محدثین میں سے ہیں۔ کنیت ابوالحسن ہے۔ حضرت امام مالک کے اخص تلامذہ میں سے ہیں اور حضرت امام مالک کے علاوہ حماد بن زید اور ابو معاویہ ”عبد اللہ بن مبارک “ وغیرہ سے آپ نے احادیث روایت کی ہیں۔ احمد بن حفص، نصر بن حسین وغیرہ آپ کے شاگرد ہیں۔ اس قدر پاکباز، متدین، محتاط تھے خاص طور پر اکل حلال میں کہ آپ کے مال میں ایک درم بھی ایسا نہ تھا جسے مشکوک یا حرام قرار دیا جا سکے۔ ان کے شاگرد احمد بن حفص کا بیان ہے کہ میں حضرت مولانا اسماعیل کی وفات کے وقت حاضر تھا۔ اس وقت آپ نے فرمایا کہ میں اپنے کمائے ہوئے مال میں ایک درم بھی مشتبہ چھوڑ کر نہیں چلا ہوں۔ یہ فخر امت میں کم ہی لوگوں کو حاصل ہوا ہے کہ باپ بھی محدث ہو اور بیٹا بھی محدث بلکہ سید المحدثین۔ اللہ تعالٰیٰ نے یہ شرف حضرت امام بخاری کو نصیب فرمایا جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کو ”کریم ابن الکریم ابن کریم“ کہا گیا ہے اسی طرح حضرت امام بخاری بھی محدث ابن المحدث قرار پائے۔ مگر صد افسوس کہ والد ماجد نے اپنے ہونہار فرزند کا علمی زمانہ نہیں دیکھا اورآپ کو بچپن ہی میں داغ مفارقت دے گئے۔ حضرت امام بخاری کی تربیت کی پوری ذمہ داری والدہ محترمہ پر آگئی جو نہایت ہی خدا رسیدہ عبادت گزار شب بیدار خاتون تھیں۔ والدین کی علمی شان و دینداری کے پیش نظر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت امام کی تعلیم وتربیت کس انداز کے ساتھ ہوئی ہو گی۔
علامہ عجلونی نے آپ کی ثقاہت کے بارے میں یہ عجیب واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ آپ سمندر کا سفر کر رہے تھے اور آپ کے پاس ایک ہزار اشرفیاں تھیں۔ ایک رفیق سفر نے عقیدت مندانہ راہ و رسم بڑھا کر اپنا اعتماد قائم کر لیا۔ حضرت امام بخاری نے اپنی اشرفیوں کی اسے اطلاع دے دی۔ ایک روز آپ کا یہ رفیق سو کر اٹھا تو اس نے با آواز بلند رونا شروع کر دیا اور کہنے لگا کہ میری ایک ہزار اشرفیاں گم ہو گئی ہیں۔ چنانچہ تمام مسافروں کی تلاشی شروع ہوئی۔ حضرت امام نے یہ دیکھہ کر کہ اشرفیاں میرے پاس ہیں اور وہ ایک ہزار ہیں۔ تلاشی میں ضرور مجھ پر چوری کا الزام لگایا جائے گا۔ اور یہی اس کا مقصد تھا۔ امام نے یہ دیکھ کر وہ تھیلی سمندر کے حوالہ کر دی۔ امام کی بھی تلاشی لی گئی۔ مگر وہ اشرفیاں ہاتھ نہ آئیں اور جہاز والوں نے خود اسی مکار رفیق کو ملامت کی۔ سفر ختم ہونے پر اس نے حضرت امام سے اشرفیوں کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے ان کو سمندر میں ڈال دیا۔ وہ بولا کہ اتنی بڑی رقم کا نقصان آپ نے کیسے برداشت فرما لیا۔ آپ نے جواب دیا جس دولت ثقاہت کو میں نے تمام عمر عزیز گنوا کر حاصل کیا ہے۔ اور میری ثقاہت جو تمام دنیا میں مشہور ہے کیا میں اس کو چوری کا اشتباہ اپنے اوپر لے کر ضائع کر دیتا۔ اور ان اشرفیوں کے عوض اپنی دیانت وامانت و ثقاہت کا سودا کر لیتا میرے لیے ہرگز یہ مناسب نہ تھا
حافظ ابن حجر نے مقدمہ فتح الباری میں تفصیلاً لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور صحابہ و تابعین کے پاکیزہ زمانوں میں احادیث کی جمع و ترتیب کا سلسلہ کماحقہ نہ تھا۔ ایک تو اس لیے کہ شروع زمانہ میں اس کی ممانعت تھی جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت سے ثابت ہے۔ محض اس ڈر سے کہ کہیں قرآن مجید اور احادیث کے متون باہمی طور پر گڈمڈ نہ ہوجائیں۔ دوسرے یہ کہ ان لوگوں کے حافظے وسیع تھے۔ ذہن صاف تھے۔ کتابت سے زیادہ ان کو اپنے حافظہ پر اعتماد تھا اور اکثر لوگ فن کتابت سے واقف نہ تھے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کتابت احادیث کا سلسلہ زمانہ رسالت میں بالکل نہ تھا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وجوہ بالا کی بنا پر کما حقہ نہ تھا۔ پھر تابعین کے آخر زمانہ میں احادیث کی ترتیب وتبویب شروع ہوئی۔ خلیفہ عادل حضرت عمر بن عبد العزیز علیہ نے حدیث کو ایک فن کی حیثیت سے جمع کرانے کا اہتمام فرمایا۔ تاریخ میں ربیع بن صبیح اور سعید بن عروبہ وغیرہ وغیرہ حضرات کے نام آتے ہیں جنھوں نے اس فن شریف پر باضابطہ قلم اٹھایا۔ اب وہ دور ہو چلا تھا جس میں اہل بدعت نے من گھڑت احادیث کا ایک خطرناک سلسلہ شروع کر دیا تھا۔
Ещё видео!