*حد ہی نہیں حسینؑ تیرے انتقام کی!
لفظِ یزید گالی سے بدتر بنا!!*علامہ اقبال*
#جب تمھاری زندگی میں دو ایسے راستے آجائیں کہ ظالم تمھیں گردن اٹھانے نہ دے اور دین تمھیں گردن جھکانے نہ دے تو تیسرا راستہ گردن کٹانے کا راستہ ہے#. (حضرت امام حسین علیہ السلام)۔
*#میری جنگ فقط یزید سے نہیں ہے بلکہ ہر اس شخص سے ہے جو یزید جیسا کردار رکھتا ہے*#(حضرت امام حسینؑ)
"واقعہ کربلا یا واقعہ عاشورا سنہ 61 ہجری کو کربلا میں پیش آنے والے اس واقعے کو کہا جاتا ہے جس میں یزیدی فوج کے ہاتھوں امام حسینؑ اور آپؑ کے اصحاب شہید ہوگئے۔ واقعہ کربلا مسلمانوں خاص طور پر شیعوں کے نزدیک تاریخ اسلام کا دلخراش ترین اور سیاہ ترین واقعہ ہے۔ شیعہ حضرات اس دن وسیع پیمانے پر عزاداری کا اہتمام کرتے ہیں۔امام حسینؑ نے چار ماہ کے قریب مکہ میں قیام فرمایا۔ اس دوران کوفیوں کی طرف سے آپ کو کوفہ آنے کے دعوت نامے ارسال کیے گئے اور دوسری طرف سے یزید کے کارندے آپؑ کو حج کے دوران مکہ میں شہید کرنے کا منصوبہ بنا چکے تھے اس بناء پر آپؑ نے یزیدی سپاہیوں کے ہاتھوں قتل کے اندیشے اور اہل کوفہ کے دعوت ناموں کے پیش نظر 8 ذی الحجہ کو کوفہ کی جانب سفر اختیار کیا۔ کوفہ پہنچنے سے پہلے ہی آپؑ کوفیوں کی عہد شکنی اور مسلم کی شہادت سے آگاہ ہو گئے کہ جنہیں آپ نے کوفہ کے حالات کا جائزہ لینے کیلئے کوفہ روانہ کیا تھا۔ تاہم آپؑ نے اپنا سفر جاری رکھا یہاں تک کہ حر بن یزید نے آپ کا راستہ روکا تو آپ کربلا کی طرف چلے گئے جہاں کوفہ کے گورنر عبیدالله بن زیاد کی فوج سے آمنا سامنا ہوا۔ اس فوج کی قیادت عمر بن سعد کے ہاتھ میں تھی۔
10 محرم، روز عاشورا کو دونوں فوجوں کے درمیان جنگ ہوئی جس میں امام حسینؑ، ان کے بھائی عباس بن علی اور شیرخوار علی اصغر سمیت بنی ہاشم کے 17 افراد اور 50 سے زیادہ اصحاب شہید ہوئے۔ بعض مقتل نگار شمر بن ذی الجوشن کو امام حسینؑ کا قاتل قرار دیتے ہیں۔ عمر بن سعد کے لشکر نے اپنے گھوڑوں کے سموں تلے شہیدوں کے اجساد کو پامال کیا۔ روز عاشور عصر کے وقت سپاه یزید نے امام حسینؑ کے خیموں پر حملہ کر کے انہیں نذر آتش کیا۔ شیعہ حضرات اس رات کو شام غریباں کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ امام سجادؑ نے بیماری کی وجہ سے جنگ میں حصہ نہیں لیا لہذا آپؑ اس جنگ میں زندہ بچ گئے اور حضرت زینبؑ، اہل بیت کی خواتین اور بچوں کے ساتھ دشمن کے ہاتھوں اسیر ہوئے۔ عمر بن سعد کے سپاہیوں نے شہدا کے سروں کو نیزوں پر بلند کیا اور اسیروں کو عبید اللہ بن زیاد کے دربار میں پیش کیا اور وہاں سے انہیں یزید کے پاس شام بھیجا گیا
#* شاید آپ ماتم کرتے ہوں یا نہ کرتے ہوں، شاید آپ کربلا والوں کو روتے ہوں یا نہ روتے ہوں، شاید آپ سیاہ لباس بیادِ شہداء کربلا پہنتے ہوں یا نہ پہنتے ہوں !! لیکن ایک لمحے کو تصور کریں ماؤں کے سامنے دلہاروں کے جنازے ہوں، بہنوں کے سامنے بھائیوں کے جنازے ہوں، بیٹیوں کے سامنے والد کا جنازہ ہو، لیکن کفن و دفن تو دور پر پاس جانے کی بھی اجازت نہ ہو، اس سے بڑی کوئی مصیبت ہم اپنے معاشرے میں تصور کرسکتے ہیں ؟ لیکن ابھی تصور جاری رکھیں اگر وہ بیٹیاں کائنات کے رسول محمد صہ کی نواسیاں ہوں جن کے سامنے قرآنِ دخترانِ حیدر امام حسین ع کا جسد خاکی ہو، جن کے سامنے محافظِ چادرانِ مستوراتِ اہلبیت حضرت عباس علیہ السلام کے کٹے بازو ہوں، پھر ایک طرف نظر گھمائیں تو چار سالہ ننھی معصومہ ہے جو سہمی ہوئی ہے کہ رات کے وقت مجھے بابا کا سینہ کیسے نصیب ہوگا ؟ سکینہ س پوری زندگی بابا کے سینے کے بغیر کیسے گزارے گی؟ اک طرف بافخر مگر غمزدہ ماں ہے جو اپنے یوسف کی قربانی پیش کر چکی ہے، ایک ماں جو اپنے چھہ ماہ کے معصوم شہزادے علی اصغر علیہ السلام کی قربانی دے کر سرخرو ہے، پھر اک ایسی بیبی بھی ہے جو اپنے بھائیوں، بھتیجوں کے بعد اپنے بیٹوں پر فخر کرتی ہے کہ جنہوں نے میدان میں اپنے آقا حسین علیہ السلام پہ قربان ہو کر اپنی جنگ سے ثابت کیا کہ جعفرِ طیار ان کا دادا اور حیدرِ کرار ان کا نانا ہے۔
بس عزیزان، آپ کربلا والوں کو بھلے نہ روئیں، بھلے ماتم نہ کریں، بھلے سیاہ پوشی نہ کریں، پر یہ جاننے کے لیے سرگرم رہیں کہ ایسا کیا تھا مقصد کربلا کے جس کے لیے حرمِ رسول ص نے اتنی مصیبتیں برداشت کیں اتنی قربانیاں دیں، تو بس مقصدِ کربلا جانیئے، سمجھئیے اور سمجھائیے کیونکہ کربلا دنیا کی کامل ترین درسگاہ ہے اور کربلا سے ہی عالمی نظام رائج ہوگا جس کے سائے تلے مہدویت قائم ہوگی۔۔۔۔۔
#*احساسِ کربلا تجھے ہو جاۓ گا اُس دن
تنہا کسی عزیز کی میّت اٹھا کے دیکھ*#۔۔۔
والسلام۔۔۔
Ещё видео!