Urdu documentary
amazing information in Urdu Hindi
interesting information in Urdu Hindi
interesting facts about Masjid Al Aqsa in Urdu Hindi
مسجد اقصیٰ (تعارف اور مختصر تاریخ)حصہ اول
Masjide Aqsa ,introduction and brief history in Urdu hindi
@infoatjawad
#viral #amazinginformation #informativevideo #interesting #history #fact
مسجد اقصیٰ (تعارف اور مختصر تاریخ) !
مسجد اقصیٰ کا محل وقوع
مسجد اقصیٰ فلسطین کے دارالحکومت بیت المقدس میں واقع ہے بیت المقدس کو القدس بھی کہا جاتاہے، القدس کو مغربی اصطلاح میں یروشلم کہا جا تا ھے ۔عبرانی میں القدس کو یروشلائم کہا جا تا ھے ۔ اس کا ایک نام ایلیا بھی ھے ۔ اسلام سے قبل اس کا نام ایک رومی بادشاہ نے ایلیا رکھا تھا۔
یہ بحر روم سے ۵۲ کلو میٹر ، بحر احمر سے ۲۵۰ کلو میٹر اور بحر مردار سے ۲۲ کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ بحر روم سے اس کی اونچائی ۷۵۰ میٹر اور بحر مردار کی سطح سے اس کی بلندی ۱۱۵۰ میٹر ہے۔ سب سے پہلے یہاں یبوسین آکر آباد ہوئے، ایک روایت ہے کہ اس شہر کو ”سام بن نوح“ نے آکر آباد کیا۔ سب سے پہلے ۱۰۱۳ قبل مسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام نے اس کو فتح کیا۔
(خطط الشام ج:۵،ص:۲۵۲، القدس دراسةً وتاریخیةً)
مسجد اقصیٰ کی تاریخی حیثیت
احادیث مبارکہ کے مطابق مسجد الاقصیٰ دنیا کی دوسری مسجد ھے جس کی بنیاد رکھی گئی ۔بخاری شریف اور مسلم شریف میں حضرت ابوذر سے روایت ہے، جس میں یہ صراحت ہے کہ مسجد بیت الحرام کی تعمیر اور مسجد اقصیٰ کی تعمیر میں چالیس سال کا عرصہ ہے اور ایک روایت میں ہے کہ مسجد بیت الحرام کو حضرت آدم کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے فرشتوں نے تعمیر کیا۔ امام قرطبی فرماتے ہیں کہ ان دونوں روایتوں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بیت الحرام کے اور حضرت سلیمان علیہ السلام مسجد اقصیٰ کے مجدد ہیں، نہ کہ مؤسس۔ اور مسجد اقصیٰ کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت میں ہے، جس میں معراجِ نبوی کا تذکرہ ہے۔ (الانس الجلیل بتاریخ القدس والخلیل ص:۸-۱۰)
مسجد اقصیٰ کی تعمیر کے ادوار اس بارے میں مختلف روایات ہیں کہ مسجد اقصیٰ کا مؤسّسِ اول کون ہے:پہلا قول یہ ہے کہ سب سے پہلے فرشتوں نے تعمیر کی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے سب سے پہلے تعمیرکی۔ تیسرا قول یہ ہے کہ حضرت سام بن نوح سب سے پہلے تعمیر کرنے والے ہیں اور چوتھا قول یہ ہے کہ حضرت داؤد وسلیمان علیہما السلام پہلے تعمیر کرنے والے ہیں۔
علامہ احمد بن عبد الواحد المقدسی فرماتے ہیں کہ ان سب روایتوں میں اس طرح تطبیق ہوسکتی ہے کہ سب سے پہلے فرشتوں نے ، پھر حضرت آدم علیہ السلام نے، پھر حضرت سام بن نوح نے اور پھر حضرت داؤد وسلیمان علیہما السلام نے بالترتیب تعمیر کیا ہو۔(حوالہ سابقہ)۔ لیکن بخاری اور مسلم شریف کی احادیث سے صریحاً معلوم ہوجاتا ھے کہ جس طرح ابو الانبیا حضرت ابراھیم علیہ السلام نے اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ مل کر مکہ مکرمہ میں بیت اللہ یعنی مسجد الحرام کی بنیاد رکھی، بعینہٖ حجرت ابراھیم علیہ السلام نے اپنے دوسرے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کے ساتھ مل کر چالیس سال کے بعد بیت المقدس یعنی مسجد الاقصی کی بنیاد رکھی۔
مکہ مکرمہ کا قبلہ عالمگیر اور دائمی قبلہ تھا جبکہ بیت المقدس کا قبلہ بنی اسرائیل اور بعد میں امت محمدیہﷺ کے لئے ایک محدود مدت تک قبلہ رھا۔انبیا بنی اسرائیل مسجد الاقصیٰ میں نماز اور دوسری عبادت کرتے تھے ، تاھم احادیث سے معلوم ھوتا ھے کہ انبیا بنی اسرائیل حج کے لئے بیت اللہ یعنی مکہ مکرمہ تشریف لاتے رھے۔گویا یہ دو مراکز روئے زمین پر اللہ جل جلالہ کے گھر رھے ھیں اور مرجع الخلائق رھے ھیں۔جب رسول اللہ ﷺ کو اللہ نے نبوت سے سر فراز فرمایا تو ایک رات ان کو اپنے عجائیبات کی سیر کروانے کے لئے ان کو مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ لے گئے، جہان سے وہ عالم بالا یعنی عالم غیب کی سیر کے لئے تشریف لے گئے۔
معراج کا واقعہ اسلام کا ایک انتہائی روح پرور واقعہ ھے جس پر انسانیت کو فخر اور تشکر ھے۔معراج کے دوران مسلمانوں پر پانچ وقت کی نمازیں فرض ہوئیں۔مشیت خداوندی سے امت محمدیہ کا قبلہ ابتدا بیت المقدس یعنی مسجد الاقصیٰ مقرر کیا گیا۔غالب گمان یہ ھے کہ معراج کا واقعہ ہجرت مدینہ سے ایک سال پہلے ھوا۔ اس عہد میں دنیا میں اللہ کے دو ھی گھر موجود تھے (1) مسجد الحرام(2) مسجد الاقصیٰ۔ تیسرا مقام کوئی نہیں تھا ۔مدینہ منورہ میں اس دور میں مسجد نبوی بنی ھی نہیں تھی۔قرآن کریم جب عہد قدیم کی اقوام کا تذکرہ کرتا ھے تو دو ہی مساجد کا ذکر کرتا ھے یعنی مسجد الحرام اور مسجد الاقصیٰ۔
چونکہ قوم یہود بنی اسرائیل کی باقیات تھی اور خود کو اس دور میں بھی اللہ کی منتخب کردہ قوم سمجھتی تھی اورقوم یہود خود کو انبیا کرام علیھم السلام کی وارث سمجھتی تھی، لہذا اللہ نے اس کو آخری موقع دیا تاکہ وہ من حیث القوم کفر و بغاوت کو چھوڑ کر اللہ کی مطیع بن جائے ۔لیکن قوم یہود نے جب بنی اسرائیل کی بجائے بنی اسماعیل میں سے پیغمبر آخر الزمان کو مبعوث پایا تو ایک بار پھر اپنی کینہ پروری،قومی تعصب اور جاھلانہ تفاخر کے سبب اللہ کے کلام اور احکام کا انکار کیا اور رسول اللہ ﷺ کو آخری نبی ماننے سے انکار کر دیا۔اس طرح قوم یہود نے آخری موقع بھی کھو دیا اور من حیث القوم دائرہ اسلام سے باھر ھو گئے۔
Ещё видео!