#bayan #islam #drisrarahmed #urdu #islamic سلاجقہ روم کی سلطنت کے خاتمے کے بعد اناطولیہ میں طوائف الملوکی پھیل گئی اور مختلف سردار اپنی اپنی خود مختیار ریاستیں بنا کر بیٹھ گئے جنہیں غازی امارات کہا جاتا تھا۔
1300ء تک زوال کی جانب گامزن بازنطینی سلطنت اناطولیہ میں واقع اپنے بیشتر صوبے ان غازی امارتوں کے ہاتھوں گنوا بیٹھی۔ انہی امارتوں میں سے ایک مغربی اناطولیہ میں اسکی شہر کے علاقے میں واقع تھی جس کے سردار عثمان اول تھے۔
کہا جاتا ہے کہ جب ارطغرل ہجرت کر کے اناطولیہ پہنچے تو انہوں نے دو لشکروں کو آپس میں برسر پیکار دیکھا جن میں سے ایک تعداد میں زیادہ اور دوسرا کم تھا اور اپنی فطری ہمدردانہ طبیعت کے باعث ارطغرل نے چھوٹے لشکر کا ساتھ دیا اور 400 شہسواروں کے ساتھ میدان جنگ میں کود پڑے۔ اور شکست کے قریب پہنچنے والا لشکر اس اچانک امداد سے جنگ کا پانسا پلٹنے میں کامیاب ہو گیا۔ ارطغرل نے جس فوج کی مدد کی وہ دراصل سلاجقہ روم کا لشکر تھا جو مسیحیوں سے برسرپیکار تھا اور اس فتح کے لیے ارطغرل کی خدمات کے پیش نظر انہیں اسکی شہر کے قریب ایک جاگیر عطا کی۔ 1281ء میں ارطغرل کی وفات کے بعد اس جاگیر کی سربراہی عثمان اول کے ہاتھ میں آئی جنہوں نے 1299ء میں سلجوقی سلطنت سے خودمختاری کا اعلان کر کے عثمانی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔
عثمان اول نے اس چھوٹی سی سلطنت کی سرحدیں بازنطینی سلطنت کی سرحدوں تک پھیلا دیں اور فتح کے بعد دار الحکومت بروصہ منتقل کر دیا۔ عثمان اول ترکوں میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ درحقیقت وہ بہت ہی اعلیٰ اوصاف کے حامل تھے۔ دن کے مجاہد اور رات کے عابد کے ساتھ ساتھ انتہائی شریف النفس، سادگی پسند، مہمان نواز، فیاض اور رحم دل انسان بھی تھے۔ ان کا دور حکومت سلطنت عثمانیہ کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا سبب بنا۔
یہ عثمان اول کی ڈالی گئی مضبوط بنیادی ہی تھیں کہ ان کے انتقال کے بعد ایک صدی کے اندر عثمانی سلطنت مشرقی بحیرہ روم اور بلقان تک پھیل گئی۔
سلطنت کی فتوحات کا یہ عظیم سلسلہ عثمان کے جانشینوں نے جاری رکھا لیکن 1402ء میں تیمور لنگ نے اناطولیہ پر حملہ کر دیا اور عثمانی سلطان بایزید یلدرم شکست کھانے کے بعد گرفتار ہو گیا لیکن یہ عثمانیوں کی اولوالعزمی تھی کہ انہوں نے اپنی ختم ہوتی ہوئی سلطنت کو نہ صرف بحال کیا بلکہ چند ہی عشروں میں فتح قسطنطنیہ جیسی تاریخ کی عظیم ترین فتح حاصل کی۔ اس سے عثمانیوں کا وقار دنیا بھر میں بلند ہوا۔ سلطنت عثمانیہ کی دوبارہ بحالی کا سہرا بایزید یلدرم کے بیٹے محمد اول کے سر جاتا ہے جو اپنے اعلیٰ اخلاق و اوصاف کے باعث ترکوں میں "محمد چلبی" کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
فتح قسطنطنیہ ترکوں خصوصاً عثمانیوں کی تاریخ کا سنہرا ترین باب ہے۔ 29 مئی 1453ء میں 21 سالہ نوجوان سلطان محمد ثانی (سلطان محمد فاتح) کی زیر قیادت اس لشکر نے محیر العقول کارنامے انجام دیتے ہوئے اس عظیم شہر کو فتح کیا اور اسے اپنا دار الحکومت بنایا۔ اس طرح محمد قیصر روم بن گیا اور یہ لقب اس کے ان ارادوں کو ظاہر کرتا تھا کہ عثمانی جلد روم پر بھی قبضہ کر لیں گے اور انہی مقاصد کے حصول کے لیے 1480ء میں عثمانی افواج جزیرہ نما اطالیہ پر اتریں اور اوٹرانٹو اور اپولیا کے شہروں پر قبضہ کر لیا لیکن 1481ء میں محمد فاتح کی وفات کے ساتھ ہی فتح اطالیہ کی مہم کا خاتمہ ہو گیا۔
Ещё видео!