اس وقت دنیا میں مسلمان کس قدر بے راہ روی کا شکار ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں،خود گناہوں سے اجتناب کرنے کی بجائے دوسروں کو گناہ کی طرف دعوت دے رہے ہیں ،بہت سے مسلمان شیطان کے ایجنٹ بنے ہوئے ہیں ،سودی کاروبار کو فروغ دیا جارہا ہے ،کھیل کود کے ایسے آلات ایجاد کرلیے گئے جو سراسر اسلام کے خلاف اور اللہ تعالیٰ سے غافل کرنے والے ،جگہ جگہ منی سینما گھر،فلمی اڈے ،جوئے کے اڈے ،ہیروئن منشیات کے اڈے، شراب خانے ،گلی ،محلوں اور بازاروں میں ٹی وی ،وی سی آراور کیبل کے ذریعہ فحاشی پھیلانے کی کوششیں ،اب نت نئے ڈیزائینوں کے کیمرہ والے موبائل ،بڑے بڑے سائن بورڈوں میں خواتین کی ننگی تصویریں ،شادی بیاہ دیگر پروگراموں میں مرد وعورتوں کا مخلوط ماحول ،اسی طرح کالج یونیورسٹیوں میں لڑکے اور لڑکیوں کا بے تحاشا اختلاط ۔اس جیسے سینکڑوں اعلانیہ گناہوں میں مسلمان معاشرہ مبتلا ہوگیا ہے۔ نیز خلاف شرع رسم ورواج کی پابندی ،آپس میں ظلم وستم ،چوری، ڈاکہ ،جھوٹ،غیبت،بہتان باندھنا،الزام تراشی،خودغرضی،بداخلاقی،بدگمانی،بدزبانی،زناکاری، گانا سننا سناناوغیرہ دیگر بہت ظاہری وباطنی گناہوں میں انفرادی واجتماعی طور پر ابتلائے عام ہے۔
ہر موٴمن بندے کی دوطرح کی ذمہ داریاں بنتی ہیں:
1... ایک توخود ہر قسم کے گناہوں سے اجتناب کرنے کی کوششیں کرے ،جہاں کہیں گناہ کا کام ہوجائے تو فوری طور پر توبہ استغفار کرے اور گناہوں سے پاک وصاف ہونے کی کوشش کرے ۔
نہی عن المنکر کا فریضہ
2... اس کے ساتھ ہر مسلمان کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ دوسرے مسلمان کو گناہوں سے روکنے کی کوشش کرے۔
یہ کام انفرادی واجتماعی دونوں طرح انجام دیا جانا ضروری ہے، ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَلْتَکُن مِّنکُمْ أُمَّةٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُون﴾․ (آل عمران:104)
ترجمہ:تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے ،جو نیکی کی طرف لوگوں کو بلائے اور ان کو بھلائی کا حکم کرے اور برائی سے روکے، وہی فلاح پانے والے ہیں ۔
منکرات سے روکنے کے درجات
دوسروں کو برے کاموں سے روکنے کے درجات میں ہر شخص پر اپنی استطاعت وقدرت کے مطابق یہ ذمہ داری ادا کرنا لازم ہے ۔
قال رسول اللہ صلى الله عليه وسلم: من رأی منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ، فان لم یستطع فبلسانہ، فان لم یستطع فبقلبہ، وذلک اضعف الایمان․(مسلم:177)
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص تم میں سے کسی منکر ناجائز کام کو اپنے سامنے ہوتا ہوا دیکھے تو چاہیے کہ اس کو اپنے ہاتھ سے بدل ڈالے (یعنی بزور طاقت برے کام کو روک دے)،پس اگر اتنی طاقت نہ رکھے تو زبان سے منع کرے۔(کہ غلط اور گناہ کے کام ہیں، باز آجاوٴ) اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو(بلکہ زبان سے روکنے میں فتنے کا بھی اندیشہ ہو تو پھر)اپنے دل سے(اس کو برا جانے)اور یہ کمزور ایمان ہے۔یعنی ایمان کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ بری بات کو صرف دل سے برا جانتا رہے اور اگر دل سے بھی اس کو برا نہ سمجھا تو پھر ایمان کہاں رہا؟(مسلم شریف)
نہی عن المنکر نہ کرنے والے علماء کی مذمت
قال اللہ تبارک وتعالیٰ :﴿لَوْلاَ یَنْہَاہُمُ الرَّبَّانِیُّونَ وَالأَحْبَارُ عَن قَوْلِہِمُ الإِثْمَ وَأَکْلِہِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا کَانُواْ یَصْنَعُون﴾․(المائدة:63)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ا ن کو مشائخ اور علماء گناہوں کی بابت کہنے سے (یعنی جھوٹ بولنے سے )اور حرام مال کھانے سے کیوں منع نہیں کرتے:واقعی ان کی یہ عادت بری ہے کہ اپنا فرض منصبی امربالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ بیٹھے،قوم کو ہلاکت کی طرف جاتا ہوا دیکھتے ہیں اور ان کو نہیں روکتے۔اس آیت کے آخری جملہ بہت ہی قابل غور ہے﴿لبئس ما کانو ا یصنعون﴾․
ان علماء ومشائخ کا برائیوں سے نہ روکنا بہت بری حرکت ہے، ان بدکاروں کے اعمال بد سے بھی زیادہ سخت گناہ ہے۔
مفسر قرآن شیخ عماد الدین ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اس آیت کا حاصل یہ ہوا کہ جس قوم کے لوگ جرائم اور گناہوں میں مبتلا ہوں گے اور ان کے علماء اور مشائخ کو یہ بھی اندازہ ہو کہ ہم روکیں گے تو یہ باز آجائیں گے۔ ایسے حالات میں اگر کسی لالچ یا خوف کی وجہ سے ان جرائم اور گناہوں سے نہیں روکتے تو ان کا جرم اصل مجرموں ،بدکاروں کے جرم سے بھی زیادہ سخت ہے“۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ مشائخ اور علماء کے لیے پورے قرآن میں اس آیت سے زیادہ سخت تنبیہ کہیں نہیں۔اور امام تفسیر حضرت ضحاک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ برے علماء اور مشائخ کے لیے یہ آیت سب سے زیادہ خوف ناک ہے۔(تفسیر ابن کثیر وابن جریر)
گناہوں سے روکنے کی کوشش نہ کرنے پر دنیا میں سزا
گناہوں سے روکنے کی کوشش نہ کرنے پر آخرت کی سزا تو الگ رہی ،اس کے علاوہ دنیا میں بھی سخت سزا ہوگی ۔
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :مامن رجل یکون فی قوم یعمل فیھم بالمعاصی یقدرون علی ان یغیروا ولا یغیرون الا اصابھم اللہ بعقاب من قبل ان یموتوا․ (ابوداوٴد:4339)
بُرائی کو روکنے کی اہمیت ڈاکٹر اسرار احمد
Теги
بُرائی کو روکنے کی اہمیتمشائخ اور علماء کے لیے پورے قرآن میں اس آیت سے زیادہ سخت تنبیہ کہیں نہیںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص کسی قوم میں ہو اوراب دنیا میں آنے والے عذاب عمومی بھی ہوسکتے ہیں ،جیسے زلزلہ، طوفان،قحط سالی،خشک سالی،اس آیت کا حاصل یہ ہوا کہ جس قوم کے لوگ جرائم اور گناہوں میں مبتلا ہوں گےو ان کا جرم اصل مجرموں ،بدکاروں کے جرم سے بھی زیادہ سخت ہے“۔ڈاکٹر اسرار احمد