توشہ خانہ فوجداری کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا کے خلاف اپیل اور سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کل تک متلوی کر دی گئی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن اپنےکسی افسر کو کمپلینٹ دائر کرنےکا مجاز قرار دے سکتا ہے، اس کیس میں سیکرٹری الیکشن کمیشن نے ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کو کمپلینٹ دائر کرنے کا کہا۔
سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ صدر مملکت نے 14اگست کو قیدیوں کی سزا میں 6 ماہ کی معافی کی، چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا کا دورانیہ پہلے بھی کم اور تین سال قید تھا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن، چیف الیکشن کمشنر اور چار ممبران پر مشتمل ہوتا ہے، ریکارڈ میں الیکشن کمیشن کے کمپلینٹ دائر کرنے کا کوئی اجازت نامہ نہیں ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا اجازت نامہ ریکارڈ میں موجود ہے، جس پر سردار لطیف کھوسہ نے کہا وہ اجازت سیکرٹری الیکشن کمیشن کی جانب سے دی گئی ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں الیکشن کمیشن کاکمپلینٹ دائر کرنےکا اجازت نامہ قانون کے مطابق نہیں؟، جس پر لطیف کھوسہ نے کہا جی بالکل، وہ اجازت نامہ درست نہیں ہے۔
لطیف کھوسہ کا کہنا تھا ٹرائل کورٹ نے ہائیکورٹ کے آرڈر کو بھی نظر انداز کیا، ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں بہت خامیاں ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہماری اپیل منظور کی اور ہائیکورٹ نے درخواست دوبارہ فیصلہ کرنے کیلئے ٹرائل کورٹ کو بھجوائی۔
انہوں نے مزید کہا کہ کمپلینٹ ٹرائل کے لیے براہ راست سیشن جج کے پاس نہیں جا سکتی، قانون میں طریقہ کار دیاگیا ہے کہ کمپلینٹ پہلے مجسٹریٹ کے پاس جائے گی، سیشن کورٹ براہ راست کمپلینٹ سن ہی نہیں سکتی، ٹرائل کورٹ کا آرڈر غلطیوں کے باعث برقرار نہیں رہ سکتا۔
سردار لطیف کھوسہ نے استدعا کی کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطل کر دی جائے، سزا کالعدم قرار دینےکی اپیل پر دلائل کیلئے ہم دوبارہ عدالت کے سامنےآئیں گے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں ان تمام ایشوز پر فیصلہ دیا گیا؟ جس پر سردار لطیف کھوسہ نے کہا بالکل نہیں، جو فیصلہ انہوں نے دیا تھا وہ ہائیکورٹ کالعدم قرار دے چکی۔
لطیف کھوسہ کا عدالت میں حبس اور گرمی کا شکوہ
کمرہ عدالت میں گنجائش سے زیادہ افراد ہونے کے باعث حبس اور گرمی کی وجہ سے عدالت میں لگے اے سی بھی کام کرنا چھوڑ گئے۔ اسلام آبادہائی کورٹ بار کے صدر نوید ملک پسینہ پونچھنےکے لیے ٹشوپیپر تلاش کرتے رہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے شکوہ کیا کہ آپ کو شاید تھوڑی بہت ہوا آ رہی ہو، ہمیں توبالکل نہیں آ رہی، جس پر چیف جسٹس نے کہا اے سی کے وینٹ کے سامنے ناکھڑےہوں تاکہ ہوا نا رکے۔
ٹرائل کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کے گواہوں کو غیرمتعلقہ قرار دیا، کیا کبھی فوجداری مقدمے میں ایسا ہوا ہے؟ لطیف کھوسہ
جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ حتمی فیصلے میں کیا ٹرائل کورٹ نے وجوہات دیں؟ جس پر لطیف کھوسہ نے بتایا کہ ٹرائل کورٹ نے وجوہات نہیں دیں، ٹرائل کورٹ کے جج نے آپ کے فیصلے کو نظر انداز کیا۔
جسٹس طارق جہانگیری نے پوچھا کہ ٹرائل کورٹ نے دفاع کے گواہوں کو کس بنیاد پر غیر متعلقہ کہا؟ جس پر لطیف کھوسہ کا کہنا تھا ٹرائل کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کے گواہوں کو غیرمتعلقہ قرار دے دیا، ٹرائل کورٹ نے گواہوں کو جانچے بغیر انہیں اسی روز غیرمتعلقہ قرار دیا، ٹرائل کورٹ نے گواہوں کو غیرمتعلقہ قرار دینے کی وجہ لکھی ہی نہیں۔
سردار لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کیا فوجداری تاریخ میں ایسا کبھی ہوا ہے؟ حق دفاع ختم کرنے کے ٹرائل کورٹ فیصلے کی درخواست پر نوٹس جاری ہو چکا تھا۔
عمران خان کے وکیل کا چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سے شکوہ
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے شکوہ کرتے ہوئے کہا چیف جسٹس صاحب، معذرت کے ساتھ آپ نے بھی ٹرائل کورٹ کو حتمی فیصلہ کرنے سے روکا نہیں، اگر ہائیکورٹ نے نہیں روکا پھر بھی جج کو حتمی فیصلہ نہیں دینا چاہیے تھا، ملزم کو اپنےدفاع میں گواہ پیش کرنے سے روکا ہی نہیں جا سکتا۔
ان کا کہنا تھا ایک شخص اپنا دفاع پیش کر رہاہے آپ کیسے اُسے روک سکتے ہیں، چار گواہ تو پیش کر رہے تھے کوئی 40 تو نہیں تھے، ٹرائل کورٹ کے فیصلے سے چیئرمین پی ٹی آئی کے آئینی حقوق متاثر ہوئے، گوشوارے جمع ہونے کے 120 دن کے اندر کمپلینٹ دائر کی جا سکتی ہے، یہ کمپلینٹ گوشوارے جمع ہونے کے 920 دن بعد دائر کی گئی، یہ تو نہیں ہو سکتا کہ میرے سر پر ہمیشہ تلوار لٹکی رہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کا کہنا تھا ٹرائل کورٹ نے ناصرف ملزم کے دفاع کا حق ختم کیا بلکہ خواجہ حارث کی بحث بھی نہیں سنی، خواجہ حارث نے بتایا ان کے منشی کا مسئلہ بنا ہوا تھا جس وجہ سے آنے میں تاخیر ہوئی، خواجہ حارث 12بجے ٹرائل کورٹ پہنچ گئے تھے مگر جج نےکہا اب آپ کی ضرورت نہیں، عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا اور آدھےگھنٹے بعد 30 صفحات کا فیصلہ جاری کر دیا، ساڑھے 12 بجے فیصلہ آیا اور 12:35 پر پولیس چیئرمین پی ٹی آئی کو گرفتارکر نے پہنچ گئی، چیئرمین پی ٹی آئی نے بتایا ان کےگھرکےگیٹ اور واش روم کا دروازہ تک توڑاگیا۔___________________________________________________________________________________
#TopTrendingNews
#TrendingVideos
#TodayTrending
Ещё видео!