علم میراث منظوم اردو |
Poetry on Meerath
Written by: Maulana Usama Sarsari Written for:
IlmoAmal Organization
Voice: Arif Rao
Studio: Zaitoon TV
Video made by: Maulana Abdullah Umar
Lyrics:
﷽
علمِ میراث منظوم
شاعر: محمد اسامہ سَرسَرؔی
اظہارِ تشکر:
یہ ادارہ طالبِ علم و عمل کے واسطے
لاتا رہتا ہے ہمیشہ سیکھنے کے راستے
چار سو ہیں یہ فیوضِ عام حضرت شمس کے
کر رہا ہوں میں یہ کاوش نام حضرت شمس کے
ابتدائیہ:
اہمیت
آئیے ، میراث سیکھیں اور سکھائیں اب ذرا
نصف علم اس کو رسول اللہ(ﷺ) نے فرمادیا
اہتمامِ آیتِ ”یُوْصِیْکُمُ الله“ کیجیے
وارثوں کا حق بیاں قرآن و سنت میں ہوا
حقوقِ اربعہ
بینک بیلنس ، نقدی ، زیور ، گھر ، دکان ، اشیاء سبھی
ترکہ ہے سب ، مرنے والا چھوڑ کر جو کچھ گیا
بعد از تجہیز قرضے ، پھر وصیت ، پھر فروض
مالِ میت کے ہیں لازم یہ حقوقِ اربعہ
موانع
بات یہ بھی یاد رکھنے کی ہے میرے دوستو!
چار چیزیں مانعِ میراث ہوتی ہیں سدا
یعنی وارث میں اگر ہو چار میں سے ایک بھی
مالِ میت میں سے حصہ کچھ نہیں وہ پائے گا
قتل میت کا ، غلامی ، اختلافِ دین و دار
یاد کرتے رہنا یہ چاروں موانع بارہا
وارثین
اقسام
پہلے اصحابِ فروض اور پھر ہیں عصباتِ نسب
بعد ان کے تیسرا درجہ ذوی الارحام کا
ہیں جو اصحابِ فروض ان کے ہیں حصے طے سبھی
ان سے جو باقی بچے عصبات کو مل جائے گا
جو نہ میت کے ہیں عصبات اور نہ اصحابِ فروض
نام شارع نے ذوی الارحام ان کا رکھ دیا
تین اہم اصول
”ابن“ بیٹا ، ”بنت“ بیٹی اور ”ولد“ دونوں کو عام
بات یہ میراث کے فن میں ہے بے حد رہنما
ایک ہی وارث اگر ہو اور کوئی بھی نہ ہو
جان لو ، میت کا سارا مال اب اس کا ہوا
جب کوئی رشتہ بتایا جاتا ہے میراث میں
اس سے رشتہ ہوتا ہے مقصود بس مرحوم کا
مخارج
چھ حِصَص میراث کے قرآن میں مذکور ہیں
صورتِ نوعین ان اشعار میں مسطور ہیں
نوعِ اول: نصف ہے ، چوتھائی ہے اور آٹھواں
نوعِ ثانی: دو تہائی ، اک تہائی اور چھٹا
نصف کا دو اور چوتھائی کا مخرج چار ہے
آٹھویں حصے کا مخرج آٹھ ہی اے یار ہے
اک تہائی ، دو تہائی کا ہے مخرج تین ہی
اور چھٹے حصے کا مخرج چھ بنے گا لازمی
ہو اگر ان میں سے کوئی ایک ، مخرج ہے وہی
جیسے ہو موجود بس اک والدہ مرحوم کی
مجتمع دو تین حصے ہوں اگر اک نوع کے
جو عدد سب سے بڑا ہو ، کیجیے مخرج اسے
جیسے وارث ہوں بس اک بیوہ اور اک بیٹی اگر
آٹھ اس صورت میں بن جائے گا مخرج بے خطر
نصف نوعِ ثانی کے ہمراہ آجائے اگر
مسئلہ اس میں بنے گا چھ سے ، اس کو یاد کر
جیسے میت کی ہو اک دادی اور اک بیٹی حیات
مسئلہ چھ سے بنے گا ، یہ ہے اک آسان بات
اور اگر چوتھائی نوعِ ثانی کے ہمراہ ہو
تب بنایا جاتا ہے مخرج ہمیشہ بارہ کو
جیسے وارث ہوں فقط خاوند اور دو بیٹیاں
بارہ حصے ہوں گے تقسیم ان سبھی کے درمیاں
اور اگر ہو آٹھواں ہمراہ نوعِ ثانی کے
مسئلہ بنتا ہے اس صورت میں بس چوبیس سے
جیسے بیوہ اور بیٹی وارثوں میں ہوں اگر
مخرج اب چوبیس ہے ، یہ بات ہے آسان تر
ذوی الفروض:
بارہ ذوی الفروض
باپ ، دادا ، زوج ، زوجہ ، دادیاں اور نانیاں
تین بہنیں ، خیفی بھائی ، بیٹی ، پوتی ، والدہ
ان کے حصے خود شریعت نے مقرر کردیے
اس لیے اب نام ”اصحاب الفروض“ ان کو ملا
باپ
باپ کا اولاد کی موجودگی میں نصف ہے
باپ ہے عصبہ اگر بیٹا نہ ہو مرحوم کا
دادا
حکم دادا کا ہے والد کی طرح میراث میں
باپ کی موجودگی میں دادا ہے معدوم سا
اخیافی بہن بھائی
ایک سے بڑھ کر اگر ہوں تو تہائی سب کا ہے
ہو اگر بس ایک ماں جائی تو اس کا ہے چھٹا
باپ ، دادا ، بیٹا ، بیٹی میں سے ہو کوئی اگر
اخوۂ خیفی کو اب میراث مت دینا ذرا
خاوند/ بیوہ
نصف بے اولاد کے شوہر کا ، ورنہ ہے ربع
بیوہ کو اللہ نے شوہر سے بھی آدھا دیا
بیٹی
ایک بیٹی نصف لے گی ورنہ سب کا دو ثلث
عصبہ میں دو بیٹیوں کے مثل بیٹے کو ملا
پوتی
پوتیوں کا حصہ بالکل بیٹیوں جیسا ہی ہے
ایک بیٹی بھی اگر ہو تو ہے پوتی کا چھٹا
بہنیں
اک بہن کا نصف ، دو بہنوں کا حصہ دو ثلث
بیٹیوں یا بھائی سے ہوگی بہن عصبہ سدا
ہیں سگوں کی طرح سوتیلے ، مگر محروم ہیں
جب سگی بہنیں ہوں میت کی یا ہو بھائی سگا
ہو سگی بس اک بہن ، کوئی سگا بھائی نہ ہو
پائیں گی سوتیلی بہنیں بن کے وارث اب چھٹا
باپ ، دادا ، بیٹا ، پوتا ، چار میں سے کوئی ہو
ہوگا اب محروم کل بھائی بہن کا قافلہ
ماں
بیٹا ، بیٹی ہو یا دو بھائی بہن ہو تب سدس
ورنہ ماں کا اک تہائی ہے شریعت نے رکھا
بیوہ یا خاوند کا حصہ تو پہلے دیجیے
جو بچے اس کا تہائی ماں کا ، باقی باپ کا
دادی ، نانی
ماں کرے محروم سب کو ، باپ دادی کو فقط
ہوں نہ گر ماں باپ ، دادی نانی کا ہے بس چھٹا
عصبات
بیٹا ، پوتا ، باپ ، دادا ، بھائی ، بیٹے بھائی کے
پھر چچا ، پھر اس کے بیٹے ، ان سفل اور ان علا
بعدِ اصحاب فروض ان کو ملے گا سارا مال
ان میں پہلا مستحق ہوتا ہے سارے مال کا
اور جس کے ساتھ عورت ہو تو وہ بھی عصبہ ہے
پائے گی عورت اکہرا ، مرد اس سے دوہرا
ذوی الارحام
نام اُن سب رشتہ داروں کا ذوی الارحام ہے
جو ہیں عصبات اور اصحابِ فرائض کے سوا
ہیں یہ اولادیں ، اصول ، اولادِ اب ، اولادِ جد
چار قسمیں ہیں ذوی الارحام کی مشکل ذرا
قسمِ اول ہے نواسی اور نواسا اور نواسی بیٹے کی
قسم ثانی میں ہے نانا اور جدہ فاسدہ
قسمِ ثالث ہر بھتیجی اور بھانجے ، بھانجیاں
قسمِ رابع پھوپھی ، خالہ ، ماموں اور خیفی چچا
اختتامیہ
ہر بشر کے مال کا مالک حقیقی رب ہی ہے
عارضی ملکیّتیں اللہ نے کی ہیں عطا
اے اسامہ! سیکھ لو میراث اور بانٹو وہی
جس کا جو حصہ شریعت نے مقرر کردیا
Ещё видео!