یکم نومبر2023ء) لاہور کی سیشن کورٹ نے ڈی آئی جی شارق جمال مبینہ قتل کیس میں ملزم جاوید بٹ،قرۃ العین اور عدیل کو 8 نومبر تک گرفتار کرنے سے روک دیا۔ عدالت نے ملزمان کو شاملِ تفتیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے آئندہ سماعت پر تفتیشی افسر سے رپورٹ طلب کر لی۔ ڈی آئی جی شارق جمال قتل کیس میں ملزمان کے خلاف تھانہ نشتر کالونی پولیس نے مقدمہ درج کر رکھا ہے۔
مقدمہ مقتول کی بیٹی حانیہ شارق خان کی مدعیت میں درج ہے۔، یہ مقدمہ شارق جمال کی 18 سالہ بیٹی کی مدعیت میں ایک سرکاری ملازمہ سمیت 7 افراد کے خلاف تھانہ نشتر ٹاون میں درج کیا گیا تھا۔ شارق جمال کی پراسرار موت کے تقریبا 3 ماہ بعد درج کرائے گئے اس مقدمے میں الزام لگایا گیا تھا کہ شارق جمال کو مبینہ طور پر زہر دے کر ہلاک کیا گیا، مقدمے میں سرکاری ملازمہ قرۃالعین، منصور ، سمیع اللہ ، شعیب عمران، جاوید بٹ اور شارق جمال کے 2 ذاتی ملازموں صغیر اور عدیل کو نامزد کیا گیا۔
شارق جمال کی بیٹی نے مقدمے میں الزام لگایا کہ میرے والد ڈی آئی جی شارق جمال کی ہلاکت کو طبعی موت ظاہر کرکے ڈرامہ رچایا گیا، میں اپنے والد کی اکلوتی اولاد ہوں، میری والدہ ابھی تک صدمہ قتل کی وجہ سے شدید بیمار ہیں اور میرے اعصاب بھی ابھی تک صدمہ قتل کی وجہ سے متاثر ہیں، میرے والد حاضر سروس ڈی آئی جی پنجاب پولیس تھے، وہ اپنی زندگی میں مجھے اور میری والدہ کو بتا چکے تھے کہ چند افراد انہیں پراپرٹی اور رقوم وغیرہ ہتھیانے اور دیگر ناجائز مقاصد کے حصول کی خاطر قتل کرنا چاہتے ہیں اور ان کے قتل کو حادثاتی موت ظاہر کرنا چاہتے ہیں، اس بات کا ثبوت بذریعہ موبائل ریکارڈ / ایس ایم ایس بھی موجود ہے، اس سے پہلے بھی انہیں کرنٹ لگا کر اور کلائی کے قریب رگ کاٹ کر قتل کرنے کی کوششیں کی جا چکی ہیں، 21 جولائی کی رات انہیں مبینہ طور پر زہر دے کر قتل کر دیا گیا، ان کی ہلاکت کے وقت تجوری کھلی ہوئی تھی، اور اس میں سے 8 کروڑ روپے مالیت کے ڈالرز اور 5 لاکھ کی نقدی غائب تھی، انگوٹھی اور گھڑی بھی غائب تھی، دیگر سامان دستاویزات خرید و فروخت پراپرٹی، معاہدات، چیک بکس اور تمام کاغذات غائب تھے، میرے والد نے مجھے بتایا ہوا تھا کہ انہوں نے متعدد جگہ زمین خرید و فروخت میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے، اور اقرار نامے بھی رکھے ہیں، مقدمہ درج کرکے ملزموں کو گرفتار کیا جائے۔
Ещё видео!