It is a common question, How to learn and how to survive in a new practical legal system, we have already told that what to learn and now we are sharing 10 different rules to survive in legal profession which are as under 1-punctuality 2-Responsibility 3-Involvment 4-Never rely upon your memory 5-Angle of perception 6-Helpfulness 7-Connectivity 8-Honesty 9-Less Expectations 10-Discipline اس ویڈیو میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایسوسی ایٹ وکیل کیسے اور کس حد تک درج بالا خصائص کو استعمال کرکے کامیاب وکیل بن سکتا ہے
#وکیل یعنی #شعبہ_وکالت نوجوان وکلاء جو اپنے بہتر مستقبل کیلئے اپنے تعلیمی شعبہ میں بےجا تنقید کی وجہ سےمشکل کا شکار ہیں نئے وکلاءکی جانب سے شعبہ وکالت کے بارے پوچھے جانے والے 3 معروف سوال نمبر 1 کیا ہمیں شعبہ وکالت کی مزید تعلیم حاصل کرنی چاہئے ؟ نمبر 2 وکالت میں ہمارے بہتر مستقبل کی کیا گارنٹی ہو گی ؟ نمبر 3 وکالت ہم کس کس شعبہ میں خدمات سر انجام دے کر اپنا مستقبل روشن بنا سکتے ہیں ؟ پہلی رائے پڑھنا ہی واحد راستہ ہے ترقی کا , پڑھائی اور صرف پڑھائی جب تک منزل نہ پالے پرسنل ٹریننگ ،کرنٹ افیئرز اور تاریخ کا مطالعہ اہم ترین ہے چاہے آپ کس بھی ڈگری کیلئے تعلیم لے رہے ہو کوئی بھی کبھی منزل حاصل نہیں کر پاتا اپنے خوابوں کی , اگر ترقی کرنی ہے اور منزل پانی ہے تو بڑوں کا احترام چھوٹوں سے پیار اور اپنے کام سے کام رکھیں انگریزی پر مکمل عبور حاصل کریں بہترین وکیبلری کے ساتھ چاہے دینی تعلیم ہی کیوں نہ حاصل کر رہے ہوں میری اپنے بچوں کو بھی یہی نصیحت ہے اب آتے ہیں شعبہ وکالت کی طرف #وکیل اللہ کی صفات میں سے ایک صفت کا نام ہے اور معاشرے میں انصاف اور معاملات کو بیلنس رکھنے کیلئے اسی صفت کو سب سے اہم کردار ادا کرنا ہوتا ہے وکیل معذور کی زبان ہوتا ہے جو اسلامی لحاظ سے بھی نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے رائج ہے ہر شخص اپنا مؤقف پیش کرنے، اس کو ثابت کرنے کے لیے دلائل دینے اور اپنا حق وصول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، نیز بعض اوقات کورٹ کچہری جانے میں ذلت سے بچنا بھی مقصود ہوتا ہے۔ لہٰذا شریعتِ مطہرہ نے اپنی طرف سے کسی دوسرے کو مقدمے کی پیروی کا وکیل بنانے کی اجازت دی ہے اور یہ طریقہ قدیم زمانے سے چلا آرہا ہے۔ وکیل سے مخاصمہ کرنے کے متعلق حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں: ”طلقنی زوجی ثلاثاً، ثم خرج الی الیمن، فوکل اخاہ بنفقتی، فخاصمتہ الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“ ترجمہ:میرے شوہر مجھے تین طلاقیں دے کر یمن چلے گئے اور اپنے بھائی کو میرے نفقے کا وکیل بنایا تو میں نے رسولاللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں، ان (شوہر کے بھائی) سے مخاصمہ کیا۔(کتاب الاصل ،ج11،ص205) حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ثابت ہے کہ وہ تنازعات میں اپنی طرف سے دوسرے کو وکیل بنایا کرتے تھے۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: ”کان علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ یکرہ الخصومۃ فکان اذا کانت لہ خصومۃ وکل فیھا عقیل بن ابی طالب فلما کبر عقیل وکلنی“ ترجمہ: حضرت علی بن ابوطالب رضی اللہ تعالٰی عنہ جھگڑے کو ناپسند فرماتے تھے، لہٰذا جب ایسا موقع درپیش ہوتا تو حضرت عقیل بن ابو طالب رضی اللہ تعالٰی عنہ کو وکیل بنا دیتے تھے پھر جب حضرت عقیل کی عمر زیادہ ہوگئی تو مجھے وکیل بنایا۔(سنن الکبری للبیہقی،ج 6، ص134) تنازعات پر وکیل بنانے کے جواز اور حکمت کے متعلق امام سرخسی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: ”اذا وکل الرجل بالخصومۃ فی شئ فھو جائز لانہ یملک المباشرۃ بنفسہ فیملک ھو صکہ الی غیرہ لیقوم فیہ مقامہ وقد یحتاج لذلک اما لقلۃ ھدایتہ او لصیانۃ نفسہ عن ذلک الابتذال فی مجلس الخصومۃ وقد جری الرسم علی التوکیل علی ابواب القضاء من لدن رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم الی یومنا ھذا من غیر نکیر منکر وزجر زاجر“ ترجمہ: جب کوئی شخص کسی جھگڑے میں وکیل بنائے تو یہ جائز ہے کیونکہ وہ خود یہ کام کرسکتا ہے تو کسی اور سے کروانے کا اختیار بھی رکھتا ہے تاکہ دوسرا اس کے قائم مقام ہو جائے، بسا اوقات وکیل بنانے کی ضرورت اس لئے بھی ہوتی ہے کہ مؤکل کو پوری سمجھ نہیں ہوتی یا کورٹ میں ذلت سے بچنا مقصود ہوتا ہے۔ بہرحال فیصلوں میں وکیل بنانے کا جواز نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم کے زمانۂ مبارکہ سے آج تک بغیر کسی انکار کے رائج ہے۔(مبسوط سرخسی،ج19، ص6) اس کے علاؤہ بھی سینکڑوں روایات و حکایات ہے بلکہ قرآن پاک میں بھی احکام موجود ہیں اس مقدس پیشہ کے بارے میں، پیشہ وکالت اور وکیل برے نہیں ہیں لیکن کچھ برے لوگ وکیل بن گئے ہیں اور اچھے لوگوں نے طویل عرصہ سے اس شعبہ میں آنے سے گریز کیا ہے جس کی وجہ سے وقتی عدم توازن ہے جس کیلئے مثبت لوگوں کو سوائے تنقید کے اصلاح کیلئے آگے آنا چاہیے ہیں
Ещё видео!