سورة الْبَقَرَة
آیت 180
یہ حکم اس زمانے میں دیا گیا تھا ، جبکہ وراثت کی تقسیم کے لیے ابھی کوئی قانون مقرر نہیں ہوا تھا ۔ اس وقت ہر شخص پر لازم کیا گیا کہ وہ اپنے وارثوں کے حصے بذریعہ وصیت مقرر کر جائے ، تاکہ اس کے مرنے کے بعد نہ تو خاندان میں جھگڑے ہوں اور نہ کسی حق دار کی حق تلفی ہونے پائے ۔ بعد میں جب تقسیم وراثت کے لیے اللہ تعالیٰ نے خود ایک ضابطہ بنا دیا ( جو آگے سورہ نساء میں آنے والا ہے ) ، تو نبی ﷺ نے احکام وصیت اور احکام میراث کی توضیح میں حسب ذیل دو قاعدے بیان فرمائے : ایک یہ کہ اب کوئی شخص کسی وارث کے حق میں وصیت نہیں کر سکتا ، یعنی جن رشتے داروں کے حصے قرآن میں مقرر کر دیے گئے ہیں ، ان کے حصوں میں نہ تو وصیت کے ذریعے سے کوئی کمی یا بیشی کی جا سکتی ہے ، نہ کسی وارث کو میراث سے محروم کیا جا سکتا ہے ، اور نہ کسی وارث کو اس کے قانونی حصے کے علاوہ کوئی چیز بذریعہ وصیت دی جا سکتی ہے ۔ دوسرے یہ کہ وصیت کل جائداد کے صرف ایک تہائی حصے کی حد تک کی جا سکتی ہے ۔ ان دو تشریحی ہدایات کے بعد اب اس آیت کا منشا یہ قرار پاتا ہے کہ آدمی اپنا کم از کم دو تہائی مال تو اس لیے چھوڑ دے کہ اس کے مرنے کے بعد وہ حسب قاعدہ اس کے وارثوں میں تقسیم ہو جائے اور زیادہ سے زیادہ ایک تہائی مال کی حد تک اسے اپنے ان غیر وارث رشتہ داروں کے حق میں وصیت کرنی چاہیے ، جو اس کے اپنے گھر میں یا اس کے خاندان میں مدد کے مستحق ہوں ، یا جنہیں وہ خاندان کے باہر محتاج اعانت پاتا ہو ، یا رفاہ عام کے کاموں میں سے جس کی بھی وہ مدد کرنا چاہے ۔ بعد کے لوگوں نے وصیت کے اس حکم کو محض ایک سفارشی حکم قرار دے دیا یہاں تک کہ بالعموم وصیت کا طریقہ منسوخ ہی ہو کر رہ گیا ۔ لیکن قرآن مجید میں اسے ایک حق قرار دیا گیا ہے ، جو خدا کی طرف سے متقی لوگوں پر عائد ہوتا ہے ۔ اگر اس حق کو ادا کرنا شروع کر دیا جائے ، تو بہت سے وہ سوالات خود ہی حل ہو جائیں ، جو میراث کے بارے میں لوگوں کو الجھن میں ڈالتے ہیں ۔ مثلاً ان پوتوں اور نواسوں کا معاملہ جن کے ماں باپ دادا اور نانا کی زندگی میں مر جاتے ہیں ۔تفہیم القرآن
Ещё видео!