ISLAH KI GARAZ SAY BACHON KI TADEEB KA KIA HUKAM HAY?
اصلاح کی غرض سے بچوں کی تادیب کا کیا حکم ہے؟
بچوں کو مارنا بغرض اصلاح درست ہے؟ نفسیاتی طور پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟
مارپیٹ اور سزا سے بچوں کو تکلیف اور شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ بعض اوقات والدین اور اساتذہ بچوں کو ان کے ناقابلِ قبول رویوں پر سزا دینا اپنا حق سمجھتے ہیں تاکہ وہ انہیں فوری نظم و ضبط کا پابند بنا سکیں۔ جبکہ ان کے اس رویے سے اصلاح کی نسبت بگاڑ کا احتمال زیادہ ہے۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ بچوں کی اصلاح کے لیے ترغیب و ترہیب دونوں ضروری ہیں، کیونکہ بعض اوقات صرف ترغیب کارگر نہیں ہوتی اور فقط تربیت پر بھی اکتفاء کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے والدین اور اساتذہ کو موقع و محل کی مناسبت سے وقتاً فوقتاً دونوں پر عمل کرنا چاہیے۔
اسلام دین فطرت ہے اور ہر معاملہ میں اعتدال کا سبق دیتا ہے۔ تعلیم کے میدان میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی مشعلِ راہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچوں کی تعلیم و تربیت کے معاملہ میں ڈانٹ ڈپٹ اور برا بھلا کہنے کی بجائے انہیں پیار، محبت اور حکمت سے سمجھاتے۔ حضرت معاویہ بن حکم السلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
بَيْنَا أَنَا أُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقُلْتُ: يَرْحَمُكَ اللهُ فَرَمَانِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ، فَقُلْتُ: وَاثُكْلَ أُمِّيَاهْ! مَا شَأْنُكُمْ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ؟ فَجَعَلُوا يَضْرِبُونَ بِأَيْدِيهِمْ عَلَى أَفْخَاذِهِمْ، فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ يُصَمِّتُونَنِي لَكِنِّي سَكَتُّ، فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبِأَبِي هُوَ وَأُمِّي، مَا رَأَيْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ أَحْسَنَ تَعْلِيمًا مِنْهُ، فَوَاللهِ، مَا كَهَرَنِي وَلَا ضَرَبَنِي وَلَا شَتَمَنِي، قَالَ: «إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ لَا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ، إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ.
میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز میں شریک تھا کہ جماعت میں کسی شخص کو چھینک آئی، میں نے کہا: یرحمک اﷲ۔ لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کر دیا۔ میں نے کہا: کاش یہ مر چکا ہوتا، تم مجھے کیوں گھور رہے ہو؟ یہ سن کر انہوں نے اپنی رانوں پر ہاتھ مارنا شروع کر دیا۔ جب میں نے سمجھا وہ مجھے خاموش کرانا چاہتے ہیں تو میں خاموش ہو گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر میرے ماں باپ فدا ہوں! میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے اور آپ کے بعد آپ سے بہتر کوئی سمجھانے والا نہیں دیکھا۔ خدا کی قسم! (نماز سے فارغ ہونے کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے جھڑکا نہ برا بھلا کہا، نہ مارا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نماز میں باتیں نہیں کرنی چاہئیں؛ نماز میں صرف تسبیح، تکبیر اور تلاوت کرنی چاہیے۔
مسلم، الصحيح، كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب تحريم الكلام في الصلاة ونسخ ما كان من إباحة، 1: 381، رقم: 537، بيروت: دار إحياء التراث العربي
أحمد بن حنبل، المسند، 5: 447، رقم: 23813، مصر: مؤسسة قرطبة
معلم میں حلم الطبع اور عفو و درگزر جیسی صفات کا ہونا اَز حد ضروری ہے۔ اگر بچوں کی کسی غلطی پر معلم کو غصہ آ جائے تو وہ درگزر کرنے کی بجائے مار پیٹ اور غصے سے طلباء کو اور بھی متنفر کر دیتا ہے۔ حالانکہ اس مسئلہ کا صحیح حل ایسی تادیبی کارروائی کرنا ہے، جو تعمیری ہو۔ مثلاً اگر معلم نے بچے کو ہوم ورک دیا اور اگلے دن کلاس میں بچے نے کہا کہ میں نے واقعی کام کر لیا ہے۔ مگر ہوم ورک کی کاپی گھر بھول آیا ہوں۔ استاد کو تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے تو تعمیری سزا کے طور پر استاد اس بچے کی تفریح کے وقت اسے وہی کام دو یا تین مرتبہ لکھنے کو دے۔ اس سے بچے کو پریشانی لاحق ہوگی۔ کیونکہ تفریح کے وقت کوئی بچہ بھی مقید ہونا پسند نہیں کرتا۔ لہٰذا معلم بچوں کی غلطیوں پر درگزر کرتے ہوئے سزا کی بجائے بقدرِ ضرورت تعمیری و تادیبی کارروائی عمل میں لائے۔ بچوں کے ساتھ والدین کا رویہ بھی یہی ہونا چاہیے کیونکہ بےجا ڈانٹ ڈپٹ اور ہر وقت کی مار پیٹ بچوں پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ مار پیٹ سے بچوں پر مرتب ہونے والے منفی اثرات میں سے چند درج ذیل ہیں:
ہر وقت کی ڈانٹ ڈپٹ، مارپیٹ اور غصہ نہ صرف بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ والدین و اساتذہ اور بچوں میں دوری کا بھی سبب بنتا ہے۔ وہ کسی کو بھی اپنی بات سمجھانے سے قاصر رہتے ہیں۔
بچے اپنے والدین اور اساتذہ کا عکس ہوتے ہیں۔ اگر والدین بےجا غصہ اور رعب جماتے رہیں گے تو بچوں کی عادت میں بھی یہی رنگ نظر آئے گا۔
بچے انتہائی خاموش اور سہمے سہمے سے رہتے ہیں۔ بچپن کا وہ چلبلا پن جو بچوں کی فطرت ہے وہ ان میں مفقود ہو جاتا ہے۔
بچے جب اپنے جذبات مجروح ہوتے دیکھیں گے تو ان کے اندر منفی احساسات پیدا ہو جائیں گے۔ خود اعتمادی کے فقدان کے باعث وہ کسی بھی تعمیری کام میں حصہ لینے سے گھبراتے رہیں گے۔
بچوں کی مثبت صلاحتیں منفی رخ اختیار کر لیتی ہیں جس کے نتائج نہ صرف گھر کے اندر خرابی کا باعث بنتے ہیں بلکہ پورے معاشرے کے لیے بھی وبال بن جاتے ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
Ещё видео!