تیسری بحث:تاریخ نزولِ قرآن
تاریخ نزول قرآن سمجھنے کےلئے تمہیداً چند باتوں کوسمجھنا ضروری ہے ۔
1: ارہاص کی تعریف:
”رہص“ سنگ بنیاد کو کہتے ہیں ۔ ابنیاء علیہم السلام کی دنیا میں تشریف آوری یا ان کے دعویٰ نبوت سے پہلے حق تعالیٰ کچھ ایسی نشانیاں ظاہر فرماتے ہیں جو خرق عادت ہونے میں معجزات کی طرح ہوتی ہیں اور ایسی نشانیاں چونکہ نبوت کے اثبات کا مقدمہ اور اس کی تمہید ہوتی ہیں ، اس لئے ان کو ”ارھاص“ کہا جاتا ہے ۔ چنانچہ اصحابِ فیل کی ہلاکت کا واقعہ، بتوں کا منہ کے بل گر پڑنا، فارس کے مجوسیوں کی ایک ہزار سال سے جلائی ہوئی آگ کا ایک لمحہ میں بجھ جانا، کسریٰ کے محل کا زلزلہ اور اس کے چودہ کنگروں کا منہدم ہو جانا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کے بدن سے ایک ایسے نور کا نکلنا جس سے ’’بصریٰ‘‘ تک کے محل روشن ہو گئے۔ یہ سب واقعات اسی ارہاص کے سلسلہ کی کڑیاں ہیں جو حضور علیہ السلام کی تشریف آوری سے پہلے ہی ’’مبشرات‘‘ بن کر آپ کی نبوت کے اثبات کا مقدمہ بنے۔
2: اقسام نزول:
قرآن کریم نے اپنے نزول کے لیے دو قسم کے الفاظ بیان کیے ہیں:
1: انزال 2: تنزیل
”انزال“ کا معنی یکبارگی اتارنا“۔ قرآن کریم میں جہاں انزال کا لفظ ذکر ہوا ہے اس سے مراد قرآن کا لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا کی طرف نزول ہے۔ ارشادِ باری ہے:
إِنَّا أَنْزَلْنٰهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ. (سورۃ القدر:1)
ترجمہ: ہم نے اس (قرآن)کو لیلۃالقدر میں اتارا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
في قوله : { إنا أنزلناه في ليلة القدر } قال : أنزل القرآن جملة واحدة حتى وضع في بيت العزة في السماء الدنيا ونزله جبريل عليه السلام على محمد صلى الله عليه و سلم بجواب كلام العباد وأعمالهم. (المعجم الکبیر: ج6 ص32 رقم الحدیث12213)
اور لفظِ ”تنزیل“ تدریجی نزول کے لیے استعمال ہوا ہے، ارشادِ خداواندی ہے:
وَقُرْآنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَأَهٗ عَلَى النَّاسِ عَلٰى مُكْثٍ وَنَزَّلْنٰهُ تَنْزِيلًا. (الاسراء:106)
سب سے پہلی وحی:
بعض مفسرین نے سورۃ الفاتحہ کو پہلی وحی قرار دیا ہے اور بعض نے سورۃ المدثر کی ابتدائی آیات کو سب سے پہلی وحی قرار دیا ہے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ سب سے پہلی وحی سورۃ علق کی ابتدائی آیات ہیں جو کہ غار حراء میں نازل ہوئیں۔ (الاتقان فی علوم القرآن: ج 1ص23 ملخصاً)
سب سے آخری وحی:
قرآن مجید کی آخری نازل ہونے والی آیت یہ ہے:
﴿وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللّهِ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ﴾( البقرۃ:281)
(المعجم الکبیر للطبرانی: ج6 ص27 رقم الحدیث12188، الاتقان: ج1 ص27)
اور نبی علیہ السلام اس آیت کے نازل ہونے کے بعد 9 راتوں تک زندہ رہے۔(الاتقان: ج1 ص27)
استاذ: متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن مدظلہ
یشکش: احناف میڈیا سروسز۔
درسگاہ: خانقاہ حنفیہ مرکز اہل السنت والجماعت سرگودھا
Ещё видео!