قرآن مجید میں یقین کے مختلف پہلوؤں کو بہت وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ قرآن میں یقین کو ایک بلند درجہ اور انسان کی روحانی و فکری ترقی کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے قرآن میں "یقین" کو مختلف انداز میں ذکر کیا گیا ہے، جن میں علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین شامل ہیں۔
1. علم الیقین (Knowledge of Certainty):
علم الیقین وہ درجہ ہے جب انسان کو کسی حقیقت کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہیں، اور وہ اس پر اعتماد کرتا ہے۔ یعنی اس بات کا یقین علم کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
آیت:
“كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِ"
(سورة التکاثر 102:5)
ترجمہ: "ہرگز نہیں، اگر تم علم الیقین رکھتے تو (ایسا نہ کرتے)"
یہاں علم الیقین سے مراد وہ علم ہے جو مکمل یقین کے ساتھ ہو، یعنی جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ ہو۔
2. عین الیقین (Vision of Certainty):
عین الیقین کا مطلب ہے یقین کی وہ حالت جس میں انسان اپنی آنکھوں سے کسی حقیقت کا مشاہدہ کرتا ہے۔ یہ یقین کا وہ درجہ ہے جہاں صرف معلومات ہی نہیں بلکہ آنکھوں کے مشاہدے کی بنا پر یقین حاصل ہوتا ہے۔
آیت:
“ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ الْيَقِينِ"
(سورة التکاثر 102:7)
ترجمہ: "پھر تم اسے یقین کی آنکھوں سے دیکھو گے"
یہاں عین الیقین اس وقت کو بیان کرتا ہے جب انسان کو حقائق اس کی نظروں کے سامنے ظاہر ہو جائیں گے، اور وہ براہ راست ان کا مشاہدہ کرے گا۔
3. حق الیقین (Absolute Truth of Certainty):
حق الیقین یقین کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے، جس میں انسان حقیقت کو اس کے اصل اور مکمل معنی میں سمجھ لیتا ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب علم اور مشاہدہ کے بعد حقیقت کا عملی تجربہ ہوتا ہے۔
آیت:
“وَإِنَّهُ لَحَقُّ الْيَقِينِ"
(سورة الحاقة 69:51)
ترجمہ: "اور یقیناً یہ (قرآن) حق الیقین ہے"
اس آیت میں حق الیقین کو قرآن کے ساتھ جوڑا گیا ہے، یعنی قرآن میں جو حقائق بیان کیے گئے ہیں وہ کامل اور یقینی سچائی ہیں۔
4. یقین کی اہمیت:
قرآن میں یقین کو ایمان کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ جن لوگوں کے دلوں میں یقین ہوتا ہے، وہ اللہ پر مکمل بھروسہ کرتے ہیں اور زندگی کے ہر معاملے میں اس کی راہنمائی پر اعتماد کرتے ہیں۔
آیت:
“إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا"
(سورة الحجرات 49:15)
ترجمہ: "حقیقت میں تو مومن وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے، پھر کبھی شک میں نہ پڑے۔"
یہ آیت ظاہر کرتی ہے کہ ایمان اور یقین آپس میں جڑے ہوئے ہیں، اور کامل ایمان وہی ہوتا ہے جو شک و شبہ سے پاک ہو۔
5. انبیاء اور صالحین کی یقین میں مثال:
قرآن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ بھی یقین کی وضاحت کے لیے بیان کیا گیا ہے، جب انہوں نے اللہ تعالیٰ سے مردوں کو زندہ کرنے کا مشاہدہ طلب کیا تاکہ ان کا دل مطمئن ہو جائے۔
آیت:
"وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي"
(سورة البقرة 2:260)
ترجمہ: "اور جب ابراہیم نے کہا، 'اے میرے رب! مجھے دکھا کہ تُو مُردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے'، (اللہ نے) فرمایا: 'کیا تم ایمان نہیں رکھتے؟' کہا: 'ایمان رکھتا ہوں، مگر دل کے اطمینان کے لیے (دیکھنا چاہتا ہوں)'۔"
یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ یقین کی کیفیت تب اور بڑھ جاتی ہے جب انسان کسی حقیقت کو عملی طور پر دیکھ لیتا ہے۔
6. یقین کے بغیر ایمان کی کمی:
قرآن میں یقین نہ رکھنے والوں کو "شک کرنے والے" کہا گیا ہے اور انہیں گمراہی کی طرف مائل تصور کیا گیا ہے۔
آیت:
"إِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوبُهُمْ فَهُمْ فِي رَيْبِهِمْ يَتَرَدَّدُونَ"
(سورة التوبة 9:45)
ترجمہ: "وہی لوگ آپ سے اجازت طلب کرتے ہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کے دل شک میں مبتلا ہیں، وہ اپنے شک میں بھٹکتے رہتے ہیں۔"
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ یقین کی کمی ایمان کی کمزوری کا باعث بنتی ہے اور انسان کو شک میں مبتلا کر دیتی ہے۔
نتیجہ:
قرآن میں یقین کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور اسے ایمان کی بنیاد کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین تین مختلف مراحل ہیں جو انسان کو مکمل یقین کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہ مراتب بتاتے ہیں کہ یقین کا سفر علم سے شروع ہوتا ہے، مشاہدے سے گزرتا ہے، اور حقیقت کے تجربے پر مکمل ہوتا ہے۔
Ещё видео!