لعل شہباز قلندر
لعل شہباز قلندر (1177ء تا 1274ء) جن کا اصل نام سید عثمان مروندی تھا، سندھ میں مدفون ایک مشہور صوفی بزرگ تھے۔ ان کا مزار سندھ کے علاقے سیہون شریف میں ہے۔ وہ ایک مشہور صوفی بزرگ، شاعر، الٰہیات دان، فلسفی اور قلندر تھے۔ ان کا زمانہ اولیائے کرام کا زمانہ مشہور ہے۔ مشہور بزرگ سید صدرالدین نقوی الرضوی شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی، شیخ فرید الدین گنج شکر، شمس تبریزی،مخدوم عبدالرشید حقانی، جلال الدین رومی اور سید جلال الدین سرخ بخاری، مخدوم صدر الدین قتال، صدر الدین عارف (فرزند بہاؤ الدین زکریا)، شیخ بو علی قلندر پانی پتی ان کے قریباً ہم عصر تھے۔ ہندوﺅں اور مسلمانوں میں مذہبی رواداری کی تبلیغ کی بنا پر لعل شہباز قلندر تمام مذاہب کے پیروکاروں میں یکساں محترم تصور کیے جاتے ہیں۔ چونکہ ان کا خرقہ تابدار یاقوتی رنگ کا ہوا کرتا تھا اس لیے انہیں "لعل"، ان کی خدا پرستی اور شرافت کی بنا پر "شہباز" اور قلندرانہ مزاج و انداز کی بنا پر "قلندر" کہا جانے لگا۔ برصغیر کے تمام ممالک بھارت، پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں انتہائی مشہور صوفی گیت دما دم مست قلندر میں لعل شہباز قلندر ہی کی تعلیمات کو پیش کیا گیا ہے۔ اصلاً یہ گیت تیرہویں صدی عیسوی میں لکھا گیا تھا اور اس کے بعد سے اسے بہت سے موسیقاروں اور گلوکاروں نے گایا اور ہر دور میں یہ انتہائی مقبول رہا۔
ولادت
لعل شہباز قلندر کی ولادت 538ھ بمطابق 1143ء آذر بائیجان کے علاقے مروند (موجودہ آذربائیجان یا افغانستان) میں ہوئی۔
سلسلہ نسب
لعل شہباز قلندر کا سلسلہ شجرہ نسب تیرہ واسطوں سے امام جعفر صادق تک پہنچتا ہے۔ آپ کا شجرہ نسب کچھ یوں ہے:
”سید عثمان مروندی بن سید کبیر بن سید شمس الدین بن سید نور شاہ بن سید محمود شاہ بن احمد شاہ بن سید ہادی بن سید مہدی بن سید منتخب بن سید غالب بن سید منصور بن سید اسماعیل بن سید جعفر صادق“
وطن
لعل شہباز کا وطن مروند تھا، مروند کا شہر تبریز سے کچھ فاصلے پر ہے، اس شہر کو میوند بھی کہا جاتا ہے۔ یہ شہر بہت قدیم ہے۔ یہ شہر اس وقت آذربائیجان کا دار الخلافہ تھا۔ دریا کے کنارے خوش نما شاداب منظر کے سبب مشہور تھا۔ یاقوت نے لکھا ہے کہ اس شہر کو کردوں نے تخت و تارج کیا۔ کردوں کے حملے کے بعد قلعہ برباد ہو گیا اور شہر کی ہیبت و شان جاتی رہی۔ کرد اہل مروند کو اپنا غلام بنا کر لے گئے۔ مدتوں یہاں خاک اڑتی رہی۔ انسانی آبادی سے یہ شہر مدتوں خالی رہا۔ مستونی کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شہر نہر رود پر واقع تھا۔ اس نہر کی کافی وسعت تھی۔ نو ہاتھ زمین کے اندر بہتی تھی۔ مرند کی خوشحالی اور رونق ختم ہو چکی تھی۔ یہ شہر قرمّر کے کپڑوں کی وجہ سے مشہور تھا۔ جن سے لالی رنگ تیار ہوتا ہے، تاریخ میں آتا ہے کہ اس شہر کے نواح میں بہت سی بستیاں آباد تھیں۔
ان حقائق سے پتا چلتا ہے کہ آپ کا اصل وطن آذربائیجان ہے اور شہر کا صحیح نام مرند ہے۔ مرند سے مروندی ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔
القاب کی وجہ تسمیہ
آپ کے چہرہ انور پر لال رنگ کے قیمتی پتھر "لعل" کی مانند سرخ کرنیں پھوٹتی تھی اور سرخ کپڑے زیب تن کرنے کی وجہ سے آپ کا لقب لعل ہوا۔ شہبازکا لقب امام حسن نے ان کے والد کو پیدائش سے پہلے بطور خوشخبری کے عطا کیا کہ ہم تمہیں اپنے نانا سے عطا ہوا تھا اس وجہ سے ”شہباز“ لقب ہوا اور اس سے مراد ولایت کا اعلیٰ مقام ہے۔
القاب:
• لعل (سرخ کپڑوں کی وجہ سے )
• شہباز (خلافت ملنے کے سبب)
• سیف اللسان (جو ارشاد فرماتے پورا ہوجاتا)
• قلندر (سلسلہ قلندری)
• شمس الدین (تبلیغ اسلام کے صلہ میں)
• مہدی
• مخدوم (علوم ظاہری و باطنی میں مہارت کی وجہ سے)
شجرۂ طریقت
لعل شہباز قلندر کا شجرہ طریقت حکیم فتح محمد سیوہانی نے اپنی تصنیف۔”قلندرنامہ“ میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے:
” حضرت قلندر مروندی سیوہانی کا سلسلہ قلندری حضرت امام زین العابدین کے واسطے سے سرور کائنات محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک پہنچتا ہے۔کیونکہ یہ سلسلہ سید جمال سے حضرت علی بن موسیٰ رضا، امام جعفر صادق، امام زین العابدین اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کریم سے ہوتا ہوا سرور کائنات محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک پہنچتا ہے۔[8] “
اس کے علاوہ بہت سے تذکرہ نگاروں نے آپ کا سلسلہ طریقت قادریہ بتایا ہے۔ دارالشکوہ کا جو شجرہ طریقت ”تذکرہ الفقرہ“ میں درج ہے۔ وہ عثمان مروندی کے واسطے سے شیخ عبدالقادر جیلانی سے مل جاتا ہے۔
” دارالشکوہ مرید ملا شاہ خشی مرید میاں میر سیوہانی حضرت خضر سیوہانی مرید شاہ سکندر مرید خواجہ خانی مرید سید علی قادری مرید حضرت مخدوم سید عثمان مروندی قلندر شہباز مرید شاہ جمال مجرد مرید ابواسحاق ابراہیم مرید مرتضیٰ سبحانی مرید حضرت احمد بن مبارک مرید حضرت سید عبدالقادر جیلانی حمۃ اللہ علیہم اجمعین۔
حصولِ تعلیم
عثمان بن کبیر المعروف شہباز قلندر تعلیم ابتدائی طور پر حسب معمول اسلامی بنیادیں اصول کے تحت تھی۔
شہباز قلندر نے محض سات سال کی عمر میں ہی قرآن پاک حفظ کر لیا تھا۔ قرآن مجید حفظ کرنے کے بعد اپ نے بہت ہی قلیل عرصے میں مروجہ عربی و فارسی علوم میں بھی مکمل دسترس حاصل کرلی۔
لعل شہباز قلندر کی قابلیت اور عربی دانی کے سلسلے کا یہ ایک واقعہ بہت مشہور ہے:
” حضرت لعل شہباز قلندر جب ملتان میں تشریف لائے تو اس زمانہ میں غیاث الدین بلبن تخت نشین تھا۔غیاث الدین بلبن عارفوں اور علماء کرام کا بہت بڑا قدردان تھا۔ جب اس نے قلندر شہباز کی آمد کی خبر سنی تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کی تعظیم بجالایا، وہ آپ کے لیے بیش بہا تحائف بھی لایا۔جس سے اس کی عقیدت آپ کے ساتھ بخوبی ظاہر ہوتی ہے۔تحائف پیش کرنے کے بعد اس نے آپ سے درخواست پیش کی کہ آپ ملتان میں قیام کریں ۔مگر آپ نے قیام ملتان کے سلسلہ میں معذرت کرلی۔
Ещё видео!