History of Masjid Aqsa Baitul Muqaddas
و بیت المقدس »
پاک گھر ، امت مسلمہ کا قبلہ اول ، یروشلم اور اس کی عبادت گاہ جس کی بنیاد حضرت داؤد نے رکھی اور تکمیل حضرت سلیمان نے کی ۔ عام طور پر شہر یروشلم کوبھی بیت
المقدس ہی کہا جا تا ہے ۔ میدان شہروں میں سے ایک ہے جنہیں نوع انسانی عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔ جس کا ذرہ ذرہ مقدس ہے۔ اکثر انبیاءاس
شہر میں مبعوث ہوۓ ۔ یہ شہر مسلمانوں ، عیسائیوں اور یہودیوں کے لئے یکساں متبرک ہے ۔آنحضور ہجرت کے بعد صحابہ کرام کو ساتھ لے کر سترہ ماہ تک اس
طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے۔ جب آپ ﷺ معراج کے لئے گئے تو یہی مقام آپ ﷺ کی پہلی منزل بنا۔اس مقام پر آنحضور نے سابق انبیاء کی
امامت کرائی۔ یہاں حضرت داؤد حضرت سلمان اور دوسرے انبیا کے مقابر میں حضرت داود
کے مقابر میں حضرت داؤد نے شہر مقدس پر 33 سال حکومت کی ۔اس تمام عرصے
میں اسرائیلی فوجوں کوسکون بہت کم ملا۔ البتہ ان جنگوں کا نتیجہ بنی اسرائیل کے حق میں اس لئے بہت زیادہ مفید رہا کہ بنی اسرائیل جوقبائلی عصبیت کا شکار
تھے۔ مختلف قبیلوں میں بنے ہوئے تھے۔ ایک قوم بن گئے ۔ حضرت داؤد کی دلی خواہش تھی کہ وہ ایک معبد بنائیں لیکن اسرائیلی روایات کے مطابق انھیں
خواب میں بتایا گیا کہ اللہ کامستقل گھران کے بیٹے کے عہد میں تعمیر ہوگا ۔ چنانچہ حضرت سلیمان نے تخت نشین ہونے کے بعد 1012 قم میں اس معبد کی
تعمیر شروع کرائی۔ یہ عمارت اس جگہ تعمیر ہوئی جسے داؤد نے منی کی اس عمارت کی تعمیر سات سال تک مسلسل جاری رہی اور دولاکھ افراد اس کی تعمیر میں
کیا
مصروف رہے۔ بعد میں یہ عمارت ہیکل سلیمانی کے نام سے مشہور ہوئی۔ ہیکل سلیمانی فر تعمیر کا ایک شاہکار تھا۔ جس کی لمبائی 90 فٹ، چوڑائی 30 فٹ
اور اونچائی 45 فٹ تھی۔اس کے اندر پاک ترین جگہ بنائی گئی، جہاں تابوت سکینہ رکھا گیا۔ حضرت سلیمان کی وفات کے بعد بنی اسرائیل کی ریاست
دوحصوں میں بٹ گئی ۔ اس کے ساتھ ہی بنی اسرائیل فواحش، حرامکاری اور عیاشی میں مبتلا ہوگئی اور انھوں نے ایک اللہ کو چھوڑ کر بتوں کی پوجا کرنی شروع کر دی رحان بن سلیمان کوتخت پر بیٹھے پانچ سال ہوئے تھے کہ شاہ مصری شاق نے یروشلم کی طرف پیشقدمی کی اور بغیر مزاحمت کے شہر میں داخل ہو گیا۔ وہ ہیکل
سلیمانی اور عبادت گاہ کی تمام قیمتی چیز میں شاہی خزانوں کے ساتھ لوٹ کر لے گیا۔حزقیاہ ( 740 قم سے 700 قم ) نے اپنے دور میں ہیکل سلیمانی
کی عظمت کو بحال کیا۔ یہود کی پہلی قوم تباہی و بربادی بخت نصر کے ہاتھوں 598 ق م میں ہوئی ۔ اس تباہی میں نہ صرف ہیکل سلیمانی کا نام ونشان مٹ
گیا بلکہ دیگر صحائف کے ساتھ ساتھ تو رات بھی غائب ہوگئی ۔ بخت نصر کے اس حملے کے بعد تابوت سکینہ ایاغائب ہوا کہ آج تک اس کا سراغ نہیں لگایا جا
سکا۔539 ق م میں ایران کے پہلے کسری نے بابل کو فتح کیا تو اس نے یہودیوں کو اپنے وطن واپس جانے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ جب یہودی یروشلم
ہوئی۔63 قم میں روی جنرل پومسپائی کا محاصرہ کر کے ہیکل کو دوبارہ تباہ کر دیا لیکن ہیر وداعظم کے دور میں ، جو رومی شہنشاہ کے باجگزار کی حیثیت سے
یہاں کا بادشاہ بنا۔ بیت المقدس نے دوبارہ سلیمان کے عہد کی عظمت حاصل کر لی ۔ اس بادشاہ نے ہیکل سلیمانی کوازسرنوعظمت بخشی ۔ بقول کیپٹن وارن ہیرود
کے وسیع کردہ ہیکل کا رقہ تقریبا ایک ہزار فٹ تھا اور شان وشوکت میں سلیمان کے تعمیر کردہ ہیکل سے کسی طرح ہیکل کم نہ تھا۔70ء میں جب رومی شہنشاہ ،
طیطس شہر میں داخل ہوا اور روی سپاہی یہودیوں کا تعاقب کرتے ہوۓ ہیکل کے اندرونی صحن میں داخل ہوئے تو ایک یہودی نے جلتی ہوئی مشعل ہیکل کے
اندر پھینک دی جس سے ہیکل میں آگ بھڑک اٹھی اور یہ جل کر راکھ ہو گیا۔ اس مرتبہ ہیکل کی تباہی خود یہودیوں کے ہاتھوں ہوئی۔135ء میں جب دوبارہ
معبد ( ہیکل) تیار ہوا تو رومیوں نے اسے گرا کر اس کی جگہ ہل چلا دیئے۔136ء میں رومی شہنشاہ ہیڈرین نے اسے دوبارہ آباد کیا۔اور شہر کا نام پہلے ایلیا اور
پھر کیسی ٹولینا قرار دیا۔ اس بات کو فرنگی مؤرخین اور ماہرین آثار قد یر تسلم کرتے ہیں کہ ہیرود کا تعمیر کردہ ہیکل تباہ ہو جانے کے بعد صدیوں تک اس جگہ پر ملبے
اور غلاظت کے ڈھیر پڑے رہے۔ یہودیوں سے لوگ نفرت کی بناء پرلوگ کوڑا کرکٹ اسی جگہ پھینکتے تھے۔
چنانچہ حضرت عمر کے زمانے میں جب مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا تو اس وقت یہاں یہودیوں کا کوئی معبد نہ تھا۔ بلکہ کھنڈر پڑے ہوۓ تھے حضرت عمر
کے حکم سے ان کھنڈرات پر ایک مسجد کی تعمیر ہوئی۔ ایک قدیم سیاح آرکلف نے بھی ایک سادہ مسجد کا ذکر کیا ہے۔جو 670ء میں مقدس مقامات کی زیارت
کے لئے بیت المقدس بھی آیا تھا۔ تقریبا اس سادوی تعمیر کے پچاس سال بعد اموی خلیفہ عبدالملک بن مردان نے 72ھ / 290ء میں مسجد اقصی اور قبتہ
صفر کی بنیا اٹھائی۔سی خلیفہ بیت الحر تعمیر مکمل کر کے مسجد اقصی کی قیر کا کام ادوار ہو گیا تھا، ولید بن عبدالملک نے مکمل کرایا۔ وہ مقدس مقامات
جن کی بدولت یہ مقدس شہر مسلمانوں ، عیسائیوں اور یہودیوں کی عقیدتوں کا مرکز ہے۔ اکثر و بیشتر شہر کی مشرق پہاڑی پر ایک احاطہ میں ہیں جس کو مسلمان حرم
شریف اور یہودی بیت تم کے نام سے پکارتے ہیں۔ یہ بیت المقدس کا مقدس ترین حصہ ہے ۔ ڈاکٹر برکلے کے بیان کے مطابق حرم شریف 35 ایکڑ پر
مشتمل ہے ۔ مسجد اقصی اور قبتہ الصخرہ اس حرم میں ہیں ۔ حرم میں جگہ جگہ بلند مقامات ہیں۔ جنہیں مسلمان محراب کہتے ہیں اور ان کے سامنے نوافل ادا کرتے
ہیں ۔ حرم شریف میں چارحوض وضو کے لئے اور پانچ منبر واعظین کے لئے ہیں ۔ مستورات کے لئے تین مقصورے ہیں۔اندرونی و بیرونی دروازوں کی تعداد
پچاس ہے۔1967ء میں مولانا شیر علی نے حرف شریف کا طول 1200 گز عرض 660 گز اور دروازے چودہ بتاۓ ہیں ۔احاطہ حرم کے اندر جو
زیارتیں ہیں ان میں مسجد اقصی اور قبتہ الصخرہ کے علاوہ اور بھی عمارات ہیں ۔
Ещё видео!