رسول اللہ ﷺ کا مقام و مرتبہ
ڈاکٹر اسرار احمد بہتر انسان
آپ کے سامنے زور سے بولنا ایسی بے ادبی تھی جو بعض اوقات بے ادبی میں شمار نہیں ہو تی، ایسے آداب کی تعلیم میں حضور کو حیا ء مانع ہو تی تھی
*** محمد اقبال ؒ ۔ مدینہ منورہ ***
اللہ رب العالمین نے سید الانبیاء والمرسلین علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہر خیر وخوبی اور جملہ کمالات اور محاسن کا جامع بنایا۔جو صفات کمال کسی بشر کو عطا کی جا سکتی تھیں ان سب کو جسد اطہر میں ودیعت رکھا ۔ ایک حدیث میں ایک موقع کی مناسبت سے آپ نے اپنے چند خصائص خود بیان فرمائے ۔غور سے پڑھو، ارشاد فرمایا:
"میں اللہ کا حبیب ہوں اور اس پر کوئی فخر نہیں کرتا اور قیامت کے دن حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہو گا اور اس جھنڈے کے نیچے (حضرت ) آدم اور سارے انبیائے کرام علیہم السلام ہوں گے اور اس پر کوئی فخر نہیں کرتااور قیامت کے دن سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہوں گا اور سب سے پہلے جس کی شفاعت قبول کی جائیگی وہ میں ہوں گا اور اس پر بھی کوئی فخر نہیں کرتا اور سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھلوانے والا میں ہوں گا اور سب سے پہلے جنت میں مَیںاور میری امت کے فقراء داخل ہو ںگے اور اس پر بھی کوئی فخر نہیں کرتا اور میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ مکرم ہوں ۔ اولین اور آخرین میں اور کوئی فخر نہیں کرتا ۔"(العطور المجموعہ)۔
مشکوٰۃ کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ حبیب اللہ کا لقب سب سے اونچا ہے اور وہ اللہ کا محبوب ہونا ہے ایک خاص محبت کے ساتھ جو حضور کے ساتھ ہی مخصوص ہے ۔
علماء نے لکھا ہے کہ رسول اللہ کے لئے ایک مقام یہ بھی ہے کہ شفاعت کے میدان میں عرش معلّٰی کے دائیں جانب ہو ں گے جس پر اولین و آخرین سب کو رشک ہوگا ۔
ایک اور حدیث میں ہے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا :
"جنت کے جوڑوں میں سے ایک جوڑا مجھے پہنایا جائیگا ، پھر میں عرش کی دائیں طرف کھڑا ہوں گا۔ اس جگہ مخلوق میں سے کوئی بھی میرے سوا نہیں کھڑا ہوگا ۔ "
مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم نے فرمایا :
" أنََا سَیِّدُ وُلْدِ آدَمَ وَلاَ فَخْرَ " ۔
"میں اولاد آدم کا سردار ہوں اور میں اس پر کوئی فخر نہیں کرتا ۔"
دیا ہے حق نے تجھے سب سے مرتبہ عالی
کیا ہے سارے بڑے چھوٹوں کا سردار
نیز اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو رحمۃ اللعالمین بنا کر بھیجا ۔ اس رحمت عامہ میں مؤمن، کافر اور ساری مخلوق شامل ہے اور مؤمنین کیلئے خاص طور پر رؤف ورحیم بنایا ۔ خالق کا ئنات کا ارشاد ہے:وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً الِّلْعالَمِیْن۔
" عالمین"عالَم کی جمع ہے، جس میں ساری مخلوقات: انسان، جن، حیوانات، جمادات سب داخل ہیں ۔
رسول اللہ کا ان سب چیزوں کیلئے رحمت ہونا اس طرح ہے کہ تمام کا ئنات کی حقیقی روح اللہ کا ذکر اور اس کی عبادت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جس وقت زمین سے یہ روح نکل جائیگی اور زمین پر کوئی اللہ اللہ کہنے والا نہ رہیگا تو ان سب چیزوں کو موت یعنی قیامت آجائیگی اور جب ذکرُ اللہ و عبادت کا ان سب چیزوں کی روح ہونا معلوم ہو گیا تو رسول اللہ کا ان سب چیزوں کیلئے رحمت ہونا خود بخود ظاہر ہوگیا ۔رسول اللہ کا ارشاد ہے" اِنَّمَا اَ نَا رَحْمَۃٌ مُہْداۃٌ "،یعنی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی ہوئی رحمت ہوں ( اخرجہ ابن عساکر عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ ) ۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا"أنا رَحْمَۃٌ مُہْداۃٌ بِرَفْعِ قَوْمٍ وَخَفْضِ آخَرِیْن"، یعنی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی ہوئی رحمت ہوں تاکہ ( اللہ کے حکم ماننے والی ) ایک قوم کو سر بلند کروں اور دوسری قوم ( جو اللہ کے احکام ماننے والی نہیں ) کو پست کردوں ( ابن کثیر )۔
رسول کا ادب کرنے کی غیر معمولی اہمیت:
اللہ جل شانہ کے نزدیک رسول اللہ کے ادب و احترام کی اتنی اہمیت ہے کہ آپ سے نہیں بلکہ آپ کے سامنے آپس میں بلند آوازسے بولنے پر حبط اعمال کی وعید آئی ہے اور ادب کے ساتھ پست آواز رکھنے والوں کو حقیقی متقی قرار دیا :
"اے ایمان والو!تم اپنی آوازیں پیغمبر ( )کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور ان سے ایسے کھل کر مت بولا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے کھل کر بولا کرتے ہو، کہیں تمہارے اعمال برباد ہو جائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو، بے شک جو لوگ اپنی آوازوں کو رسول اللہ ( ) کے سامنے پست رکھتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے قلوب کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کیلئے خالص کر دیا ۔" (الحجرات32)۔
اس آیت کا شان نزول بخاری شریف میں ہے۔ ایک مرتبہ بنی تمیم کے لوگ آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہ مشورہ ہو رہا تھا کہ اس قبیلہ پر حاکم کس کو بنایا جائے ۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے قعقاع بن معبد ؓ کی نسبت رائے دی اور حضرت عمر ؓنے اقرع بن حابس ؓ کی رائے دی ۔ا س معاملہ میں شیخین رضی اللہ عنہما کے مابین آپ کی مجلس میں گفتگو ہوگئی اوراس میں دونوں کی آوازیں بلند ہو گئیں ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ یعنی حضور سے براہ راست نہیں بلکہ صرف مجلس مبارک میں آپس ہی میں بلند آواز سے گفتگو کرنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتنی سخت تنبیہ ہوئی کہ اے ایمان والو! اگر تم سے یہ حرکت ہوئی تو اس بات کا اندیشہ ہے کہ تمہارے اعمال حبط ہو جائیں گے اور تمہیں اس بات کا احساس بھی نہ ہوگا ۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ" حبط اعمال" یعنی سابقہ اعمال صالحہ کو ضائع کر دینے والی چیز تو باتفاق اہل ِ سنت والجماعت صرف کفر ہے ۔ کسی اور معصیت سے دوسرے اعمال ضائع نہیں ہوتے اور یہاں خطاب مؤمنین اور صحابہ کرام ؓ کو ہے جس سے اس فعل کا کفر نہ ہونا ثابت ہوتا ہے تو" حبط اعمال" کیسا ہوا ؟ دوسری آیت کے آخر میں"وَاَنْتُمْ لاَ تَشْعُرُوْنَ"ہے کہ تمہیں اس کی خبر بھی نہ ہوگی ۔ ایمان کی طرح کفر تو اختیاری چیز ہے ۔ جب اس کی خبر تک نہ ہوگی تو اس پر کفر کی سزا کیسے ہوگی ۔
Ещё видео!