" نئی نسل کو خاص طور پر آزادی کی تاریخ پڑھنی چاہیے "
محمد قمرالزماں ندوی
جنرل سیکرٹری/مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ
ہندوستان (کی تاریخ) میں دو دن کو قومی دن کا درجہ حاصل ہے،ایک آج کا دن یعنی پندرہ اگست جو آزادی کا دن ہے اور دوسرا ۲۶ جنوری جو یوم جمہوریہ کہلاتا ہے ،جس دن ہندوستان کا آئین اور قانون نافذ ہوا تھا ۔ ان دونوں دنوں میں بلا فرق مذھب و ملت اور بلا امتیاز مسلک و مشرب ہندوستان کے سارے باشندے خوشیاں مناتے ہیں اور مختلف انداز میں اپنی خوشیوں کا اظہار کرتے ہیں ۔ سرکاری ادارے ۔ نیم سرکاری ادارے اور تمام پرائیویٹ ادارے اور انجمنیں اس دن ترنگا جھنڈا لہراتے (پھراتے) ہیں ۔ مدرسوں اور اسکولوں اور کالجیجز اور یونیورسٹیوں میں طلبہ قسم قسم کے اور رنگا رنگ ثقافتی پروگرام پیش کرتے ہیں اور اسلاف کی بے مثال اور انمٹ قربانیوں اور جانفشانیوں کو یاد کرتے ہیں ۔
ایسا نہیں ہوا تھا کہ آزادی کا یہ انعام بغیر کسی جد و جہد، قربانی اور جفاکشی کے ہمیں آزادی کا تحفہ اور انعام مل گیا ہو ،پندرہ اگست کی رات کو عین بارہ بجے جب کے شمسی تاریخ بدلتی ہے، اگلا دن شروع ہوتا ہے، آسمان سے کوئی فرشتہ تشت میں یہ تحفہ لے کر آیا ہو، اور ہندوستان کے باشندہ کو دے دیا ہو ۔ ایسا ہرگز نہیں، یہ ملک طویل جدوجہد، قربانی و جفاکشی اور لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے بعد آزاد ہوا ۔ ہندوستان کے ذرے ذرے اور بوٹے بوٹے پر ان شہیدان باوفا کے نقوش جاوداں ثبت ہیں اور چپے چپے پر ان قربانیوں کے جاوداں اثرات نمایاں ہیں۔
ہمیں اس کا بھی اعتراف ہے اور اعتراف کرنا چاہیے کہ غدر کے بعد، جس کو انگریزوں نے مکر و فریب سے غدر کا نام دے دیا، یعنی ۱۸۵۷ء کے بعد آزادی کی لڑائی میں برادران وطن ہمارے ساتھ شانہ بشانہ رہے وہ لڑائی میں مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوئے لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ اس سے قبل آزادی کے لئے جو بھی کوششیں ہوئیں ان میں ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمانوں کا کردار ،ان کی قربانیاں،انکا رول اور ان کے کارنامے کہیں زیادہ ہیں شروعاتی دور میں صرف ان ہی کی قربانیاں دکھتی اور نظر آتی ہیں۔ غدر کے بعد یعنی ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد مسلمان خاص طور سے انگریزوں کے ظلم و ستم کے نشانہ بنے اور انہیں چن چن کر قتل کیا گیا، انہیں توپوں کا نشانہ بنایا گیا،بندوقوں سے ان کے جسموں کو چھلنی کیا گیا، انہیں کالا پانی بھیجا گیا، انہیں دار و رسن میں پا بہ زنجیر کرکے قید مشقت میں رکھا گیا،ان کے مال و اسباب کو لوٹ کر انہیں بے یار و مددگار کیاگیا تاکہ وہ وقت کے مزاج اور ماحول میں بہہ جائے اور وقت کی ظالم و غاصب حکومت کی ہاں میں ہاں ملائے ۔
اس کی صداقت کے لئے انگریز مورخ مسٹر ایڈورڈ ٹامسن کی یہ شہادت کافی ہے ۔ وہ اپنی یادداشت میں لکھتا ہے کہ ۱۸۶۴ء سے لے کر ۱۸۶۷ء تک انگریز نے علماء کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ تین سال ہندوستان کی تاریخ کے بڑے المناک سال ہیں ،ان تین سالوں میں انگریزوں نے چودہ ہزار علماء کو تختئہ دار پر لٹکایا اور آگے لکھتا ہے کہ ۰۰ دلی کی چاندنی چوک سے لے کر خیبر تک کوئی ایسا درخت نہ تھا جس پر علماء کی گردنیں نہ لٹکی ہوں ۰۰ ۔
تاریخ دہرانے سے زیادہ کچھ حاصل نہیں اس موضوع پر مسلمانوں کے کردار پر بار بار گفتگو کرنا تحصیل حاصل ہوگا ۔
لیکن آزادی کے بعد جس طرح یہاں کی تاریخ کو بدلنے اور مسلمانوں کی قربانیوں کو فراموش کرنے کی کوشش کی گئی اور تاریخ میں الٹ پھیر اور رد و بدل کرنے کی ناپاک کوشیش ہوئیں اور کی گئیں وہ ایک تلخ حقیقت ہے اور مسلمانوں کے لئے کڑوا گھونٹ ہے ۔
لیکن تاریخ عالم یہ شہادت دینے کے لئے کافی ہے کہ آزادی ہند قوم مسلم کی رہین منت ہے ۔ تاریخ مسخ کرنے کی ناپاک کوششوں کے بعد بھی یہ بات اس قدر روشن ہے، جیسے موسم گرما کا سورج ۔ اگر ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں نے قائدانہ کردار ادا نہ کیا ہوتا تو آزادی ایسا ، خواب ہوتی جس کی کوئی تعبیر نہیں ۔ ایک بار پھر ہم اس حقیقت کو دھرائیں کے کہ اسلام نے ہمیں عدل و انصاف کا سبق سکھایا ہے، اس لئے ہم کبھی اس کے منکر نہیں کہ برادران وطن نے بھی تحریک آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے بلکہ ۱۸۵۷ء کے بعد وہ مسلمانوں کے شانہ بشانہ قدم ملا کر لڑے ہیں ۔ لیکن ہم کبھی اس پر راضی نہیں ہو سکتے کہ مسلمانوں کا حصہ جنگ آزادی میں کسی سے کم رہا ہے یا وہ کسی کے رہین منت رہے ہیں ۔
آج ہم اور ملک کے سارے باشندے چہترواں، جشن (یوم آزادی) بڑے جوش و خروش سے منا رہے ہیں،اور مختلف انداز میں خوشیاں منا رہے ہیں ترنگا جھنڈا لہرا رہے ہیں، رنگا رنگ ثقافتی پروگرام پیش کر رہے ہیں،۔ اسلاف کی قربانیوں کا اعتراف اور اس کا تذکرہ کر رہے ہیں ۔ لیکن افسوس کہ ہمارے نوجوانوں کو اور نئی نسلوں کو آزادی کی تاریخ بالکل یاد نہیں ہے اور اگر وہ اس بارے میں جانتے بھی ہیں تو ان کے پاس جو مواد ہے، وہ محرف ناقص اور ادھورا ہے ۔ نئ نسلوں کی اس عدم واقفیت کہ ذمہ دار ہم بھی ہیں کہ ہم ان کو صحیح مواد فراہم نہیں کرتے ۔ مدرسوں میں آزادی ہند کی تاریخ نہیں پڑھاتے، اس کو ہم نے نصاب میں شامل نہیں کیا ۔ تو بھلا بتائے کہ انہیں کیسے معلوم ہوگا کہ سید احمد شہید ۔ مولانا اسماعیل شہید ۔ سراج الدولہ، مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، مولانا عبد العزیز ۔ مولانا عبد الرحیم ۔ ٹیپو سلطان شہید ۔ مولانا محمود الحسن دیوبندی ۔ مولانا ضامن شہید،مولانا سیوہاروی ۔ مولانا آزاد ۔ مولانا مدنی۔ مولانا محمد علی جوہر شوکت علی۔ حسرت موہانی ۔ فضل حق خیر آبادی ۔ سید سلیمان ندوی۔ ظفر علی خاں ۔ برکت اللہ خاں ۔ مولانا مظہر الحق ۔ مولانا عبد الباری فرنگی محلی۔ مولانا عبید اللہ سندھی۔ مولانا عطاء عطاء اللہ شاہ بخاری ۔ مولانا مغفوری۔ حکیم اجمل خاں۔ ڈاکٹر محمود اور مولانا مختار انصاری وغیرہ کون تھے اور ان کا آزادی کی لڑائی مین کتنا رول اور کردار رہا ہے ۔
ضرورت ہے کہ ہم اپنے اسلاف کی قربانیوں سے خود واقف ہوں اور نئی نسل اور بردارن وطن کو بھی واقف ک
Ещё видео!