کیا انسان کو غیب کا علم ہو سکتا ہے ؟ڈاکٹر اسرار احمد # بہتر انسان
ڈاکٹر اسرار احمد
# بہتر انسان
عِلْمِ غَیب
{عِل + مے + غَیب (ی لین)} (عربی) عربی سے مشتق اسم علم کے آخر پر کسرۂ اضافت لگانے کے بعد عربی ہی سے اسم غیب لگا کر مرکب علم غیب بنا۔ اسم نکرہ (مذکر - واحد)
لغوی معنی
چھپی ہوئی اور پوشیدہ باتوں کا علم، پیشن گوئی کا علم، وہ علم جس سے گزشتہ یا آئندہ ہونے والی بات یا حالات معلوم کیے جائیں پوشیدہ باتوں یا چیزوں کاعلم۔[1]
اصطلاحی معنی
علم غیب کے اصطلاحی معنی اہلسنت کے عقیدہ میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ایسی باتوں کا علم جو حواس خمسہ اور اندازے سے معلوم نہ ہوسکیں اورجن کے بارے میں اللہ تعالی نے اپنے انبیاء کرام علیہم السلام، اولیاءکاملین کو خبردی ہو۔(آج کل علم غیب کی بجائے اطلاع علی الغیب ،انباء الغیب اور اظہار الغیب کے الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں۔)…’’غیب ‘‘وہ ہے جو ہم سے پوشیدہ ہو اورہم اپنے حواس جیسے دیکھنے، چھونے وغیرہ سے اور بدیہی طور پر عقل سے اسے معلوم نہ کرسکیں[2]
علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں ’’جو چیز حاسہ سے غائب ہو اور جو کچھ انسانی علم سے چھپا ہو بمعنی غائب ہے۔ کسی چیز کو غیب یا غائب لوگوں کے اعتبار سے کہا جاتا ہے نہ کہ اﷲ کے اعتبار سے کہ اس سے تو کوئی چیز غائب نہیں اور فرمان باری تعالیٰ (عالم الغیب والشہادۃ) کا مطلب ہے جو تم سے غائب ہے اﷲ اسے بھی جاننے والا ہے اور جو تم دیکھ رہے ہو اسے بھی اور (یومنون بالغیب) میں غیب کا معنی ہے جو کچھ حواس سے بھی معلوم نہ ہو اور عقلوں میں بھی فوراً نہ آئے اسے صرف انبیا کرام علیہم السلام کے بتانے سے جانا جا سکتا ہے جو اس کا انکار کرے اسے ملحد کہتے ہیں۔[3]
علم کسے کہتے ہیں
حقیقت میں علم کہتے ہیں مغیبات(وہ چیزیں جن کا علم صرف خداوند تعالیٰ کو ہے) کویعنی ایسی چیز کے جاننے کو کہ جو آنکھ اور کان سے نہ دیکھی جا سکے اور علم اللہ کا ہے جو وحی کے ذریعے آتا ہے تو علم کہلانے کا مستحق وہی ہے یہ جو حسی چیزیں ہیں ان میں حس سے تصرفات کریں گے یہ احساسات سے تعلق رکھتے ہیں اسے محسوس کہیں گے علم نہیں کہیں گے۔[4]
غیب کسے کہتے ہیں
غیب اس پوشیدہ حقیقت کو کہا جاتا ہے جو نہ حواس خمسہ سے معلوم ہو نہ عقل سے معلوم ہو۔ اس پر ایمان لانا مسلمان ہونے کی پہلی شرط ہے۔ ایمان تصدیق کو کہا جاتا ہے۔ تصدیق علم کے بغیر نہیں ہو سکتی تو غیب پر ایمان کا مطلب ہوا غیب کی تصدیق۔ اورغیب کی تصدیق غیب کے علم کے بغیر نہیں ہو سکتی کہ بغیر علم تصدیق کرنا جھوٹ ہے مثلا اﷲ کی ذات و صفات، ملائکہ، انبیا، قبر، حشر نشر، قیامت، جنت اور جہنم کی تفصیلات وغیرہ وہ حقائق ہیں جو نہ حواس سے معلوم ہیں نہ عقل سے۔ ہر مسلمان صرف نبی کے بتانے سے ان پر ایمان لاتا ہے ہے مثلاً قبر میں پہلا سوال، دوسرا سوال، تیسرا سوال، منکر نکیر وغیرہ ان حقائق کو سچا یقین کرنا تصدیق ہے اور یہی ایمان ہے۔ ہر مسلمان ان حقائق کو جانتا بھی ہے اور دل سے حق سچ مانتا بھی ہے۔ یہ سب علم غیب ہے جو نبی کے ذریعے ہمیں ملا۔ اب اگر کوئی شخص نبی کے لیے ہی علم غیب نہ مانے تو وہ نبی کی بات اور دعوت کی تصدیق کیسے کرے گا؟ نبی ان حقائق کی خبریں دیں گے اور وہ کہے گا آپ کو غیب کا کیا پتہ؟ اورجس کے پاس علم غیب نہیں اس کی غیبی خبر کا کیا اعتبار؟[5]
نبوت کسے کہتے ہیں
نَبُوَّت کہتے ہی علم غیب دینے کوہیں۔امام قاضی عَیَّاض مالِکی شِفَا شریف میں فرماتے ہیں:
{{{فَالنُّبُوَّةُ: فِي لُغَةِ مَنْ هَمَزَ مَأْخُوذَةٌ مِنَ النَّبَأِ، وَهُوَ الخبر وقد لا يهمز عَلَى هَذَا التَّأْوِيلِ تَسْهِيلًا۔ وَالْمَعْنَى: أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى أَطْلَعَهُ عَلَى غَيْبِهِ، وَأَعْلَمَهُ أَنَّهُ نَبِيُّهُ فَيَكُونُ نَبِيٌّ}}}
نَبُوَّت کے معنی ہوں گے اللہ نے آپ کو اپنے غیوب پر مطلع کیا اور آپ کو بتا دیاکہ آپ اس کے نبی ہیں۔[6]
امام ابن حَجَر مکِّی مُدْخَل میں اور امام قَسْطَلَانی مَوَاہِبُ اللَّدُنِّیَۃ میں فرماتے ہیں:
{{{اِنَّ اَلنَّبُوَّۃ بِالْھَمْزَۃِ مَاخُوْذَۃٌ مِن النَبَاءِ وَھُوَ الْخَبْرُ اَیْ اَطْلَعَہُ اللہُ عَلَی الْغَیْبِ}}} نَبُوَّت نَبَاءٌ سے ماخوذ ہے بمعنی خبریعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو غیب پراطلاع دی۔[7]
تفسیرِ معالم وتفسیرِ خازن میں ہے حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم)کو علمِ غیب آتا ہے وہ تمہیں بھی تعلیم فرماتے ہیں۔[8]
عربی زبان میں نبی کا مطلب ہے۔ غیب کی خبریں دینے والا اور ظاہر ہے کہ غیب کی خبر وہی دے گا جسے غیب کا علم ہو گا بغیر علم کے خبر جھوٹی ہوتی ہے جبکہ نبی کی خبر قطعی سچی ہوتی ہے۔ عربی کی لغت کی معتبر کتاب المنجد میں ہے۔
{{{والنبوہ الاخبار عن الغیب أو المستقبل بالهام من اﷲ الاخبار عن اﷲ وما یتعلق بہ تعالی}}}[9] ’’نبوت کا مطلب ہے اﷲ کی طرف سے الہام پا کر غیب یا مستقبل کی خبر دینا۔ نبی کا مطلب اﷲ اور اس کے متعلقات کی خبر دینے والا۔ ‘‘
{{{المُخْبِر عَنِ اللَّهِ، عَزَّ وَجَلَّ، مَكِّيَّةٌ، لأَنہ أَنْبَأَ عَنْهُ، وَهُوَ فَعِيلٌ بِمَعْنَى فاعِلٍ۔}}} [10]
’’نبی کا معنی اﷲ کی خبر دینے والا کیونکہ نبی نے اﷲ کی خبر دی۔ فعیل فاعل کے معنی میں۔ ‘‘
علم غیب کی اقسام
علم غیب کی دو قسمیں ہیں:
(1) جس کے حاصل ہونے پر کوئی دلیل نہ ہو۔ یہ علم غیب ذاتی ہے اوراللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اورجن آیات میں غیر ُاللہ سے علمِ غیب کی نفی کی گئی ہے وہاں یہی علمِ غیب مراد ہوتا ہے ۔
(2) جس کے حاصل ہونے پر دلیل موجود ہو جیسے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات ،گزشتہ انبیا کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور قوموں کے احوال نیز قیامت میں ہونے والے واقعات وغیرہ کا علم۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے بتانے سے معلوم ہیں اور جہاں بھی غیر ُاللہ کے لیے غیب کی معلومات کا ثبوت ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے بتانے ہی سے ہوتا ہے۔[11]
Ещё видео!