ایک دن ایک صاحب مطب میں تشریف لائے ، انہوں نے بتایا کہ وہ شادی شد
ایک دن ایک صاحب مطب میں تشریف لائے ، انہوں نے بتایا کہ وہ شادی شدہ ہیں ماشااللہ اور ان کے تین بچے ہیں ، انہوں نے بتایا کہ ان کے گھر میں ساس اور بہو کے درمیان تعلقات بہت خراب ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ صاحب بہت زیادہ پریشان رہتے ہیں ، اِن صاحب کے لیے رشتوں میں توازن برقرار رکھنا مشکل ہورہا ہے ۔ یہ منیج نہیں کرپارہے کہ ہم ایک گھر میں رہتے ہوئے گھر کے ماحول کو اچھا کس طرح کریں۔
ان صاحب کی بات میں نے تفصیل سے سنی، کئی پوائنٹس انہوں نے بتائے، اور پھر میں نے ان سے کہا کہ دیکھیے !میاں بیوی کا رشتہ بنیادی رشتہ ہے۔ اصل جو رشتہ ہے جہاں سے سارے رشتے نکلے ہیں۔ وہ ہے ایک مرد اور ایک عورت کا ازدواجی رشتہ.... سب سے پہلے حضرت آدم اور حضرت بی بی حوا کے درمیان تعلق بنا، اس تعلق سے اولاد ہوئی، پھر اولاد در اولاد ہوئی، تو میاں بیوی کے اس اولین رشتے ست سارے رشتے نکلے ہیں۔ اولاد، والدین، بہن بھائی، چچا ، تایا، پھوپی، خالہ، ماموں، دادا ، دادی، نانا، نانی.... تو ایک تو بات یہ بنیادی ہے۔
اولاد اور والدین کے لحاظ سے اگر آپ دیکھیں تو مقدس ترین اور بہت محبت کرنے والا، بہت ایثار والا رشتہ ہے وہ ماں کا ہے۔ ماں سے زیادہ ایثار کہاں ہوگا۔ جتنا ماں اپنی اولاد کے لیے ایثار کرتی ہے۔ والد کا ایثار بھی بہت ہے لیکن ماں کی محبت اور شفقت کئی جگہ والد سے بہت زیادہ بڑھی ہوئی نظر آتی ہے۔ تو اب ہر رشتے کا اپنا ایک تقدس ہے ، ہر رشتے کا اپنا ایک احترام ہے۔ ہمارے دین میں سب رشتوں کے حقوق بہت واضح طور پر بتادئیے ہیں۔ اور اس طرح بتائے ہیں کہ ان میں ایک سے دوسرے کا کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی کی زیادہ قدر کررہا ہے تو اس سے ماں کا حق متاثر ہورہا ہے، یا کوئی ماں کی زیادہ خدمت کررہا ہے تو بیوی منہ پھلادے گی کہ میرا حق متاثر ہورہا ہے۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے ، ہر رشتے کا ہر تعلق کے حقوق واضح ہیں اور ان میں آپس میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے، اب ہمارے یہاں چند غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ، ان کی اصلاح کرنا ضروری ہے۔
ایک عورت جب کسی سے نکاح کرتی ہے، اس کی بیوی بنتی ہے ، اس کے گھر جاتی ہے، تو اس کے بہت حقوق ہوجاتے ہیں، مرد کا فرض ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ محبت کا سلوک کرے ، محبت سے پیش آئے، اس کی عزت ِ نفس کا بہت زیادہ خیال رکھے، بہت سارے لوگوں کی یہ بہت بری عادت ہے کہ وہ غصہ میں آتے ہیں یا ویسے ہی اپنی بیوی کے میکے والوں کو برا بھلا کہہ رہے ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنی اہلیہ کے والد کو کچھ کہہ دیتے ہیں ، کچھ لوگ ان کے بھائیوں کو کچھ کہہ دیتے ہیں، اس سے خاتون کا دل بہت دُکھتا ہے۔ تو جہاں محبت اور طریقے سے کرنی ہے ، وہاں ایک اپنی بیوی کے جذبات و احساسات کا پاس رکھ کر بھی محبت کا اظہار کرنا ہے۔
اب ایک پوائنٹ یہ ہے کہ نان نفقہ، اخراجات مرد کی ذمہ داری ہے مرد پروائڈر ہے۔ اب اگر بیوی بھی کماتی ہے تو بیوی کی کمائی میں شوہر کا کوئی حق نہیں۔ شوہر کی کمائی میں بیوی کا پورا پورا حق ہے، لیکن بیوی کی کمائی میں اگر وہ خود کمارہی ہے ، خاتون، تو شوہر کا کوئی حق نہیں ہے ۔ اب اگر خاتونِ خانہ اپنی کمائی میں سے گھر میں خرچ کرتی ہیں تو یہ ان کی طرف سے حسنِ سلوک ہے، یہ ان کی طرف سے احسان ہے کہ وہ شوہر کی ذمہ داریوں میں کنٹری بیوٹ کر رہی ہیں۔
اسی طریقے سے کسی خاتون پر ساس کی سسر کی سسرال والوں کی خدمت کرنا فرض نہیں ہے، کرنی چاہیے بزرگوں کی خدمت ، بزرگوں کا ادب کرنا چاہیے، احترام کرنا چاہیے، اچھی تربیت والی ایک خاتون اپنی ساس کا ادب کرنے والی ہوگی، ان کا خیال رکھنے والی ہوگی، یہ بہت اچھی بات ہے ۔ لیکن اس کا حکم نہیں دیا جاسکتا کہ ساس کی خدمت کرنا لازمی ہوگا۔ بیوی کے اوپر اپنے شوہر کے رشتہ داروں کی خدمت کرنا کوئی فرض نہیں، حتی کہ گھر دار ی، کھانا پکانا یہ بھی حسنِ سلوک میں ہی آتا ہے۔ جو لوگ صاحبِ استطاعت ہیں اور وہ اپنے گھر میں منیج کرسکتے ہیں کہ بھئی ماسی آرہی ہے، کھانا پکانے والی آرہی ہے اور خاتون اس سہولت سے فائدہ اٹھانا چاہیں، تو یہ اس کا پورا رائٹ ہے ۔
اسی طریقے سے اگر کوئی خاتون ایک جوائنٹ فیملی سسٹم میں نہیں رہنا چاہتی، وہ اپنے لیے الگ گھر کا مطالبہ کرتی ہے تو صاحبِ استطاعت مرد پر اپنی بیوی کا یہ مطالبہ پورا کرنا ضروری ہے۔ جو خاتونِ خانہ اپنی خوشی سے جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہنا چاہیں، بڑی اچھی بات ہے اُن کو ایسا کرنا چاہیے ، لیکن اگر وہ کسی وجہ سے یہ محسوس کرتی ہیں کہ یہاں ان کے لیے تنگی ہ، ان کو ستایا جاتا ہے ، ان کی عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے اور وہ اپنے لیے الگ رہائش کا مطالبہ کرتی ہیں، تو شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مطالبہ پر توجہ دے۔
اولاد کی اچھی پرورش ، اولاد کی اچھی تربیت والد اور والدہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔ والد کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کی اچھی تربیت کے لیے گھر میں ایک اچھا ماحول فراہم کرے ، والدہ کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کی اچھی تربیت کے لیے گھر میں ایک اچھا ماحول تشکیل دے۔ یعنی دونوں مل کر گھر میں اچھا ماحول تشکیل دیں۔ جن گھروں میں میاں بیوی ایک دوسرے کی ریسپیکٹ نہیں کرتے ، ایک دوسرے سے لڑتے بھڑتے ہیں یا ایک دوسرے کو ستاتے ہیں، ان گھروں کے بچے ذہنی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ ان کی شخصیت دب سکتی ہے۔ وہ نفسیاتی طور پر دباؤ محسوس کرنے والے بن سکتے ہیں۔
میاں بیوی کے تعلق سے ایک اچھے گھر کا قیام مرد اور عورت دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اس میں مرد کا اپنا رول ہے ، خاتون کا اپنا رول ہے۔ بہر حال مرد کو عورت کے احساسات کی پاس داری کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔ اسلامی تعلیمات ہمیں یہی سکھاتی ہیں۔
Ещё видео!