۔۔۔ٹیکسلا سلونی نیوز۔۔۔05۔۔مئی۔۔۔۔2022
۔۔۔کالم۔۔۔ حسین اور انقلاب۔ کچھ لمحات
جوش ملیح آبادی کے سنگ۔
۔۔۔۔۔ جوش ملیح آبادی نے غلامی میں آنکھ کھولی۔ حساس پسند انسان تھے۔ جنہوں نے غلامی کے سامنے انقلاب کے بند باندھ دیئے۔ یہ وہ لوگ تھے۔ جو قوم کو جگا رہے تھے۔ جوش نے۔ حسین اور انقلاب ۔کے حوالے سے نئی جدتوں پر مرثیہ لکھا ۔ مرثیے کو نئے زاویے اور نئی جہت عطا کر دی۔ مرثیہ جو کہ ظلمت کی تاریخ راہوں میں فریادی ہو کر لکھا جاتا ہے۔ غمزدہ ہو کے پڑھا جاتا ہے۔ اور چھم چھم آنسو برستی آنکھوں کے ساتھ سنا جاتا ہے۔ جوش نے یہاں واقعہ کربلا میں امام حسین کی ذات کو رونے رولانے اور ظلمیت سے اٹھا کر مجاہدیت یعنی قوم کو جگانے کی طرف لائے ۔ اور جوش نے اسے نئی جہت اور فکر انگیز ادا میں لکھا۔ بڑی دلگداز آواز میں پڑھا۔ اور بڑا غم زدہ ہو کر سنا۔ اور دیکھو جوش نے کیا کیا ہے۔ وہ قابض سامراج کے خلاف لکھنا چاہتا تھا۔ اور اس نے تاریخ کی طرف نظر دوڑائی۔ تو اسے سب سے زیادہ متاثر ذات امام حسین کی نظر آئی۔ اس نے غلامی کی زنجیروں سے نوجوانوں میں آزادی کا سبق ایسے سرایت کرایا۔ کہ اس نے ابتدا واقعہ کربلا سے کی اور آخری نو بند کے ساتھ ہی اس نے مرثیہ کو قومی مسائل کی طرف جوڑ دیا۔ تحریر کی انتہاء پر جلیانوالا باغ اور تحریک خلافت تک لے آئے۔ اور یہاں شعر عرض کرتے ہیں
۔اے قوم وہی پھر ہے تباہی کا زمانہ۔
۔ اسلام ہے پھر تیر حوادث کا نشانہ۔
۔ کیوں چپ ہے اسی شان سے پھر چھیڑ ترانہ۔
۔تاریخ میں رہ جائے گا مردوں کا فسانہ۔
۔ مٹتے ہوئے اسلام کا پھر نام جلی ہو۔
۔ لازم ہے کہ ہر شخص حسین ابن علی ہو۔
۔ بانوے بند پر مشتمل یہ مرثیہ لکھ کر جوش نے ایک کمال پیدا کیا۔ وہ خون ناحق کا سبق بھی پڑھ رہے ہیں۔ امام حسین کی عظیم قربانی کو طوفانی تاثیر دے کر زندہ و جاوید بھی کر رہے ہیں۔ اور یزید کے کردار کو زیر کر کے زندہ درگور بھی کر رہے ہیں۔ قوم کو حق پرستی کی طرف لا کر شمشیر و سناں کا درس بھی دے رہے ہیں ۔ فکر و بیاں میں کربلا کے عاشق کی صدا ڈھونڈنے کے لئے فکر و فن کے گوشے بھی سنوار رہے ہیں ۔ اور ادب کی دنیا میں نئی سخن بھی دریافت کر ڈالی۔ بتایا کہ آزادی صبح کا سورج درس لا الہٰ الاللہ بن کر اگر مدینہ و نجف سے گونجا ہے۔ تو کربلا میں محمد رسول اللہ پڑھ کر یہ طلوع ہو گیا ہے۔ ان کے ہر بند میں مرکزی شخصیت امام حسین کی رہتی ہے۔ جن تخلیق کاروں نے اس پر گفتگو کی ہے۔ انہوں نے اسے مرثیہ بھی کہا ہے اور رثائی نظم بھی کہا ہے۔برٹش گورے نے اس کی ٹرانسلیٹ بھی کی ہے۔اور کہا ہے کہ قوموں کو بیدار کرنے کے لیے یہ آزادی کا سبق ہے ۔ اسی لیے کوئی بھی مسلمان جو ذی شعور ہے۔ وہ چاہے کسی مسلک کوہو۔ کسی مکتبہ فکر کا ہو ۔ کسی ثقافت سے جڑا ہو یا کسی ملک کا ہو۔ یہ مرثیہ ہر ایک کو اپنی اپنی جگہ متاثر کرتا ہے۔ صاحبان ممبر ہوں ۔یاخطابت کے ماہر۔ وہ آج بھی استبدادی اور استعماری گماشتے کے خلاف آزادی صبح کا سبق اس مرثیے سے لے سکتے ہیں۔ ہر ظالم اور جابر حکمران کے خلاف انقلاب کی خوشبو اس میں بسی ہوئی ہے۔ کیونکہ جس کے دماغ میں ایک بار کربلا کے گرم ریگزاروں ۔اور پیغمبر اسلام کا بوسہ لینے والی جگہ امام حسین کے رخساروں کا سبق آ جائے۔ وہ ہر یزیدی قوت کے سامنے نمونہ اسلاف بن کے ٹکرا جاتا ہے۔ دیگر بند بھی اپنی اپنی ایک آواز ہیں۔لیکن اس سارے بند میں دو بند مجھے بہت زیادہ متاثر کرتے ہیں۔ بند کچھ اس طرح ہیں۔
۔ قربان تیرے نام کے اے میرے بہادر۔
۔ تو جان سیاست تھا تو ایمان تدبر۔
۔ معلوم تھا باطل کے مٹانے کا تجھے گر۔
۔ کرتا ہے تیری ذات پے اسلام تفاخر۔
۔ سوکھے ہوئے ہونٹوں پہ صداقت کا سبق تھا۔
۔ تلوار کے نیچے بھی وہی نعرہ حق تھا۔
۔ شعلے کو سیاہی سے ملایا تو نے۔
۔ سر کفر کی چوکھٹ پہ جھکایا نہیں تو نے۔
۔ وہ کون سا غم تھا جو اٹھایا نہیں تو نے۔
۔ بیعت کے لئے ہاتھ بڑھایا نہیں تو نے۔
۔دامان وفا گر کے شریروں میں نہ چھوڑا۔
۔ جو راستہ سیدھا تھا وہ تیروں میں نہ چھوڑا۔
۔ قارئین ۔اگر آپ نے فکر انگیز سوچ پیدا کرنا ہے۔ تو یہ مرثیہ آپ پڑھیں۔ میں اسے اکثر پڑھتا ہوں۔ اور اگر عامر راٹھور سے ملاقات ہو جائے ۔تو اس سے سنتا بھی ہوں۔ کیونکہ اسے بھی حواث زمانہ کے لوگ اچھے لگتے ہیں۔۔۔تحریر۔۔۔۔رفاقت علی اعوان۔۔۔۔سوشل میڈیا ہیڈ سلونی نیوز ٹیکسلا۔۔۔۔ ۔
Ещё видео!