#عطااللہ_خان_عیسیٰ_خیلوی :-
۔
آپ 19اگست 1951ء کوصوبہٴ #پنجاب کے ضلع #میانوالی کے قصبے #عیسیٰ_خیل کے نیازی قبیلے میں پیدا ہوئے
لالہ عطااللہ عیسیٰ خیلوی کا آبائی گھر محلہ بھمبراں والا عیسیٰ خیل میں ہے ۔والدین مالی لحاظ سے متوسط درجے سے بھی نچلے درجے پر تھے۔عیسیٰ خیل کے شمالی بازار کے کونے پروالد کی آٹا مشین تھی۔جس پر میٹرک تک لالہ خود کام کرتے رہے۔ گانے کا شوق بھی ساتھ رہا۔ والد نے گانے سے بہت روکا،سختی کی۔ مار کھائی مگر شوق سے پیچھے نہ ہٹے۔
پہلے اپنے محلے کے مڈل سکول ، پھر شہر کے ہائی سکول اور بعد میں ڈگری کالج عیسیٰ خیل میں تعلیم حاصل کی۔ عیسیٰ خیل کی مرکزی جنازہ گاہ لالہ عیسیٰ خیلوی نے اپنی جیب سے اپنی نگرانی میں تعمیر کرائی۔ شہر کے درجنوں نوجوانوں کو بیرونِ ملک بھجوایا۔اپنا گایا ہوا گانا جو اکثر سنتے اور گنگناتے ہیں۔ اُس کے بول کچھ اِس طرح سے ہیں۔ ۔ ۔ میری زندگی دا اناں خلاصہ ۔ دُکھ ، درد، آہیں تے اتھرُو اثاثہ( میری زندگی کا بس اتنا خلاصہ ہے ، دُکھ، درد، آہیں اور آنسو میرا کل اثاثہ ہیں)۔
لالہ عطااللہ خان عیسیٰ خیلوی کی عمر اس وقت #تقریبا67سال ہے۔جذبے آج بھی جوان ہیں۔ لالہ نے کل #پانچ_شادیاں کیں۔ جن میں سے پہلی تین میں بات علیحدگی پر ختم ہوئی۔ چوتھی شادی معروف #اداکارہ_بازغہ سے ہوئی۔ جس سے
#دوبیٹےسانول_بلاول اور ایک #بیٹی_لاریب ہیں۔ بازغہ انگلینڈ میں سیٹل ہوچکی ہیں جبکہ #آخری شادی تونسہ شریف کی ایک شریف فیملی میں ہوئی۔یہ بیوی #گھریلو خاتون ہیں۔ بہت سادہ،نہایت خدمت گزاراور مہمان نواز ہیں۔ بہت پیاری سی چھوٹی بیٹی #فاطمہ اسی کے بطن سے ہے جو لاہور کے ایک مقامی سکول میں زیرِ تعلیم ہے۔
لالہ کا چھوٹا بھائی #ثنااللہ خان راولپنڈی میں اپنا ذاتی کاروبار کرتاہے۔ لالہ کی دوبہنوں میں سے بڑی بہن وفات پاچکی ہیں۔چھوٹی بہن سکول ٹیچر ہیں۔اس کے دو بیٹے ہیں۔جن کی کچھ عرصہ قبل شادی ہوچکی ہے۔لالہ عطا کا عیسیٰ خیل کے نیازی خاندان کی #عزیزخیل برادری سے تعلق ہے۔جب بھی عیسیٰ خیل
آتے ہیں۔ شہر بھر اور گردونواح میں اپنے دوست احباب اور رشتہ داروں کے گھر خوشی اور غمی کے مواقع پہ ضرور شرکت کرتے ہیں۔
عطااللہ خان عیسیٰ خیلوی کا بارہ دری نما گھر، ارد گرد خوبصورت لان، درخت،مختلف پرندے اور جانور ان کی فطرت سے محبت کے عکاس ہیں۔
عطاء اللہ خان عیسی خیلوی جنہیں لالا بھی کہا جاتا ہے۔ عِيسىٰ خيل، میانوالی سے تعلق رکھنے والے تمغا #حسن کارکردگی حاصل کرنے والے پاکستانی گلوکار ہیں
انہیں روایتی طور پر ایک سرائیکی فنکار سمجھا جاتا ہے، لالا کے بہت سے موسیقی کے البمز پنجابی یا اردو اور سرائیکی میں ہیں۔ ان کا شہرہ آفاق گیت #چن_کتہاں_گزاری_ای_رات_وے آج بھی ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔
نہوں نے #پاکستانی فلم #دل_لگی میں کام کیا لیکن ان کی پہنچان سرائیکی گیت ہیں۔فلم سے زیادہ ان کا گیت دل لگایا تھا دل لگی کےلیے زیادہ کامیاب رہا۔فلم کے ناکام تجربے کے بعد انہوں نے اپنی توجہ گیتوں پر مرکوز کی۔
آکھے #واہ_بلوچا بے پروا بلوچ گیت نے انہیں شہرت کے آسمان پر پہنچا دیا۔ان کے عروج کے زمانے میںریڈیو #ملتان پر سامعین سب سے زیادہ ان کے گیتوں کی فرمائش کرتے تھے۔
آپ نے #40000سے زیادہ گیت گائے۔
یہی وجہ تھی کہ وہ وقت بھی آیا جب عطاٴاللہ عیسیٰ خیلوی کو پاکستان اور ان تمام ملکوں میں بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی جہاں پنجابی اور اردو سمجھی جاتی تھی۔
آپ کی شہرت گھر گھر اور گلی گلی پہنچی اور آج بھی اس شہرت میں کمی نہیں آئی۔
دراصل، اُن کے منفرد انداز اور گیت کو ڈوب کر ادا کرنے کے فن نے اُنھیں بہت سے اپنے ہم عصر گلوگاروں سے ایک الگ #مقام دیا ہے۔
Ещё видео!