یروشلم یا القدس شہر یہودیوں، مسیحیوں اور مسلمانوں تینوں کے نزدیک مقدس ہے۔ یہاں حضرت سلیمان کا تعمیر کردہ معبد ہے جو بنی اسرائیل کے نبیوں کا قبلہ تھا اور اسی شہر سے ان کی تاریخ وابستہ ہے۔ یہی شہر مسیح کی پیدائش کا مقام ہے اور یہی ان کی تبلیغ کا مرکز تھا۔ مسلمان تبدیلی قبلہ سے قبل تک اسی کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے تھے۔
سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بھتیجے لوط علیہ السلام نے عراق سے بیت المقدس کی طرف ہجرت کی تھی۔ 620ء میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جبریل امین کی رہنمائی میں مکہ سے بیت المقدس پہنچے اور پھر معراج آسمانی کے لیے تشریف لے گئے۔
حضرت یعقوب علیہ السلام نے وحی الٰہی کے مطابق مسجد بیت المقدس (مسجد اقصٰی) کی بنیاد ڈالی اور اس کی وجہ سے بیت المقدس آباد ہوا۔ پھر عرصہ دراز کے بعد حضرت سليمان علیہ السلام (961 ق م) کے حکم سے مسجد اور شہر کی تعمیر اور تجدید کی گئی۔ اس لیے یہودی مسجد بیت المقدس کو ہیکل سلیمانی کہتے ہیں۔
ہیکل سلیمانی اور بیت المقدس کو 586 ق م میں شاہ بابل (عراق) بخت نصر نے مسمار کر دیا تھا اور ایک لاکھ یہودیوں کو غلام بنا کر اپنے ساتھ عراق لے گیا۔ بیت المقدس کے اس دور بربادی میں حضرت عزیر علیہ السلام کا وہاں سے گذر ہوا، انہوں نے اس شہر کو ویران پایا تو تعجب ظاہر کیا کہ کیا یہ شہر پھر کبھی آباد ہوگا؟ اس پر اللہ نے انہیں موت دے دی اور جب وہ سو سال بعد اٹھائے گئے تو یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ بیت المقدس پھر آباد اور پر رونق شہر بن چکا تھا۔
بخت نصر کے بعد 539 ق م میں شہنشاہ فارس روش کبیر (سائرس اعظم) نے بابل فتح کر کے بنی اسرائیل کو واپس جانے کی اجازت دے دی۔ یہودی حکمران ہیرود اعظم کے زمانے میں یہودیوں نے بیت المقدس شہر اور ہیکل سلیمانی پھر تعمیر کر لیے۔ یروشلم پر دوسری تباہی رومیوں کے دور میں نازل ہوئی۔ رومی جرنیل ٹائٹس نے 70ء میں یروشلم اور ہیکل سلیمانی دونوں مسمار کر دیے۔
137 ق م میں رومی شہنشاہ ہیڈرین نے شوریدہ سر یہودیوں کو بیت المقدس اور فلسطین سے جلا وطن کر دیا۔ چوتھی صدی عیسوی میں رومیوں نےمسیحیت قبول کرلی اور بیت المقدس میں گرجے تعمیر کیے۔
مسلم تاریخ
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معراج کو جاتے ہوئے بیت المقدس پہنچے، 2ھ بمطابق 624ء تک بیت المقدس ہی مسلمانوں کا قبلہ تھا، حتی کہ حکم الٰہی کے مطابق کعبہ (مکہ) کو قبلہ قرار دیا گیا۔ 17ھ یعنی 639ء میں عہد فاروقی میں عیسائیوں سے ایک معاہدے کے تحت بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ خلیفہ عبد الملک کے عہد میں یہاں مسجد اقصٰی کی تعمیر عمل میں آئی اور صخرہ معراج پر قبۃ الصخرہ بنایا گیا۔
1099ء میں پہلی صلیبی جنگ کے موقع پر یورپی صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے 70 ہزار مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ 1187ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو عیسائیوں کے قبضے سے چھڑایا۔
جدید تاریخ اور یہودی قبضہ
پہلی جنگ عظیم دسمبر 1917ء کے دوران انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کر کے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ یہود و نصاریٰ کی سازش کے تحت نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دھاندلی سے کام لیتے ہوئے فلسطین اور عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا اور جب 14 مئی 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا تو پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ اس کے جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہو گئے، تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آ گئے۔ تیسری عرب اسرائیل جنگ (جون 1967ء) میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا۔ یوں مسلمانوں کا قبلہ اول ہنوز یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ یہودیوں کے بقول 70ء کی تباہی سے ہیکل سلیمانی کی ایک دیوار کا کچھ حصہ بچا ہوا ہے جہاں دو ہزار سال سے یہودی زائرین آ کر رویا کرتے تھے اسی لیے اسے "دیوار گریہ" کہا جاتا ہے۔ اب یہودی مسجد اقصٰی کو گرا کو ہیکل تعمیر کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ اسرائیل نے بیت المقدس کو اپنا دار الحکومت بھی بنا رکھا ہے۔
#historyofJerusalem
#baitulmuqaddas
#religioussignificanceofJerusalem
#baitulmuqaddaskitareekh
#historyofPalestine
#templateofSolomon
[ Ссылка ]
[ Ссылка ]
[ Ссылка ]
[ Ссылка ]
#history of jerusalem
israel news
israeli news
news from israel
middle east
iltvisraeldaily
israel english news
baitul muqaddas masjid
baitul muqaddas history
Ещё видео!