مذہب اور مسلک میں کیا فرق ہے۔
{سائل: عاکف عطاریمقام: سرینگر ہند
تاریخ اشاعت: 30 اپریل 2018ء
زمرہ: متفرق مسائل}
جواب:
مذہب اور مسلک‘ دونوں عربی زبان کے الفاظ ہیں اور لغوی طور پر ہم معنیٰ یا قریب المعنیٰ ہیں۔ مذہب کا لغوی معنیٰ ہے جانے کا راستہ، مجازاً اس سے مراد ہے کسی شخص یا گروہ کی راہِ حیات اور شرعی اصطلاح میں فقہی مسائل میں آئمہ و علماء کی اجتہادی آراء کو مذہب کہا جاتا ہے۔ حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ، حنبلیہ، جعفریہ وغیرہ فقہی مذاہب ہیں۔ جیسے کہا جاتا ہے: فلاں مسئلہ میں امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب یہ ہے۔
مسلک کے لغوی معنیٰ بھی راہ، راستہ اور چلنے کی جگہ کے ہیں، مجازاً اس سے مراد نظریہء حیات و مکتبہء فکر ہے اور شرعی اصطلاح میں فروعی و مختلف فیہ مسائل کے بارے میں آئمہ و علماء کی اعتقادی آراء کو مسلک کہا جاتا ہے۔ جیسے مسلک اہل سنت، مسلک اہل تشیع، مسلک ماتریدیہ، مسلک اشعریہ وغیرہ۔
یاد رہے کہ فقہی احکام اور فروعی مسائل میں علمی اختلاف کا ہونا ناگزیر ہے، یہ ہر دور میں ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا۔ علمی اختلاف کی موجودگی درحقیقت علم و تحقیق اور علومِ دین میں دلچسبی کا اظہار ہے۔ یہ معاشرتی تنوع کا مظہر بھی ہے جس کے ذریعے معاشرے اور قومیں آگے بڑھتی ہیں۔ مہذب معاشروں میں اپنی بات پوری وضاحت کے ساتھ بیان کی جاتی ہے، اختلافی آراء کو برداشت کیا جاتا ہے، مخالف کی غلطی اس پر واضح کی جاتی ہے اور اپنی رائے کی قبولیت و عدمِ قبولیت کو عامۃ الناس کی منشاء پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہی طریقہ ہمارے اسلاف میں بھی رائج تھا۔ تمام فقہی مذاہب و اعتقادی مسالک اپنی آراء کے ثبوت کے لیے قرآن و حدیث، اجماع و قیاس سے ہی استدلال کرتے ہیں، اختلاف نصوص فہمی یا فقہی اصول و شرعی ضوابط سے تخریج وتنقیح کا ہے یا نصوص کی تاویل وتشریح کا ہے۔ اس لیے کسی کو لعن طعن کرنا، اختلافِ رائے پر قتل و غارتگری کرنا، بندوق کے زور پر اپنی رائے کو منوانا حرام ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی: محمد شبیر قادری
{میری طرف سے اس خوبصورت جواب کے ساتھ چند گزارشات
عاشق حسین نقوی
تاریخ:9 اکتوبر 2021}
جزاک اللہ قادری صاحب؛بات۔ در اصل یہ ھے کہ الہی دین صرف اور صرف اسلام ھے۔جس کی تبلیغ و اشاعت اول نبی حضرت آدم علیہ السلام سے خاتم النبی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کی۔ہر نبی کی اُمت میں دو گروہ پیدا ہوئے۔ایک گروہ نے ان کی نبوت کا انکار کیا اور وہ غیر مسلم یا کافر قرار پائے۔دوسرا گروہ پیروکاروں کا ہوتا تھا جو بعد از نبی فروعی مسائل میں اختلاف رکھتے تھے جنہیں مذہبی اصطلاح میں مذہب یا مسلک کہتے ہیں۔انہی میں سے ایسے گروہ بھی پیدا ہوئے جو علماء کی بجائے توہمات پرستوں کے ذریعے اسلام کے بنیادی اصولوں سے منحرف ہو گئے،حتیٰ کہ اسلام کی بجائے نئے نئے نام رکھ لئے مثلا عیسائی،یہودی وغیرہ۔
مذہبی یا مسلک کے اختلاف عام زبان میں لباس کی طرح ھے،جیسے لباس کا مقصد ستر شرعی ڈھانپنا ہوتا ھے۔لباس کا رنگ اور کاٹ چھانٹ مختلف ہو سکتی ھے۔
اسلام کے دو بنیادی حصے ہیں،اُصول دین مثلا توحید،نبوت وغیرہ اور عبادات و معاملات مثلا نماز،روزہ،شادی،تجارت وغیرہ۔
اصول دین ہر انسان کی اپنی ذمہ داری ہوتی ھے کہ سمجھ کر ان پر ایمان رکھے ان میں کسی مجتہد کی ذمہ داری نہیں ہوتی۔اب عبادات اور معاملات میں رہنمائی کی ضرورت ہوتی ھے۔یا تو انسان خود اعلم ہو کہ صرف اپنے معاملات کو قرآن وسنت سے طے کرے ورنہ پھر کسی اعلم فرد سے رجوع کرے۔اس طرح جس فرد سے رجوع کیا جاتا ھے وہ مجتہد کہلاتا ھے۔اور اس سے رجوع کے عمل کو تقلید کہتے ہیں۔
تمام مسلمان ایسا ہی کرتے ہیں۔اہل سنت مسلمانوں کے ہاں نیا اجتہاد بند ہے وہ صرف چار اماموں (فوت شدہ)کے لٹریچرسے رہنمائی لیتے ہیں۔البتہ اہل تشیع مسلمان اپنے زمانہ کے کسی زندہ مجتہد سے رجوع کرتے ہیں۔جو قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرماتے ہیں۔
پس ثابت ہوا کہ اسلام کے دوسرے حصے یعنی عبادات و معاملات میں رہنمائی کی وجہ سے مختلف مذاہب اور مسالک سامنے آتے ہیں۔یہ اسلام کی خوبصورتی ھے۔یہ گل دستہ اسلام کے پھول ہیں۔ان کو علمی اختلاف کہتے ہیں اس سے فرقہ واریت کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ان اختلاف کو غلط انداز سے پیش کرنے والے لا علم افراد ہوتے ہیں جن کا مقصد فساد پھیلانا ہوتا ھے۔
ہمیں سورہ آل عمران کی آیت نمبر 64کی روشنی میں۔ مشترکات پر اکٹھے رہنا چاہیے۔باہمی احترام اس کا حل ھے۔
شکریہ
Ещё видео!