"سیکس ورکرز"
سڑک کنارے، سٹیشنوں پر،
پرانے کوٹھے کی بالکونی میں،
ہوٹلوں کی بہشت تمثال لابیوں میں
بڑے بزرگوں کے مقبروں
اور ہسپتالوں کے گیٹ کے پاس
شب گئے جو کھڑے ہوئے ہیں
یہ لوگ کیا ہیں؟
سنا ہے یہ سارے بک رہے ہیں
حسین لڑکے، ٹرانس جینڈر
یا لڑکیاں جن کے بجھتے چہروں کی زرد رنگت
چمکتا میک اپ چھپا نہ پائے
انہیں ہوس ہے یا کوئی لالچ؟
جو اپنی مرضی سے
خود کو نیلام کر رہے ہیں
مجھے کسی سے بہت محبت ہوئی تو سوچا
انہیں بھی کوئی پسند ہو گا
انہیں بھی میری طرح کسی سے
بہت محبت ہوئی ہو شاید ۔۔۔
تو کیوں بھلا یہ غلیظ جسموں کو اوڑھتے ہیں،
یہ گندے مونہوں کو سونگھتے ہیں
یہ پانچ راتوں کا کرب سہتے ہیں
آدھی شب کے معاوضے میں ...
یہ بھر کے لاتے ہیں اپنے کانوں میں
گھٹیا لفظوں کا گرم سیسہ ۔۔۔
یہ اپنے تن پر بہت سے گھاؤ لیے ہوئے ہیں
یہ اپنے من میں بہت سے گھاؤ لیے ہوئے ہیں
بھلا کوئی ہوش مند مرضی سے
اپنا نقصان کیوں کرے گا
مجھے محبت ملی تو سوچا
اگر وہ سب کچھ جو کچھ شریفوں میں بٹ گیا
انہیں بھی تھوڑا سا مل سکے تو
یہ اپنا من چاہا جسم اوڑھیں
جو ان کی روحوں میں بس رہا ہو
جو ان کے ذہنوں میں کِھل رہا ہو
جو ان کی سانسوں میں عطر گھولے
جو ان کے تن من کے گھاؤ بھر دے
یہ عام لوگوں کی عزتوں سے بنے
گھروندوں کی سمت آتے
ہوس کے پانی کے
بپھرے ریلے سنبھالتے ہیں
وہ جن کے معدے بھرے ہوئے ہیں
انہیں بتا دو
یہ دین و دنیا سے ماورا ہیں
انہیں جہنم سے مت ڈرائیں
یہ روز اپنے بدن جہنم میں ڈالتے ہیں
یہ اپنی روحوں کو بیچتے ہیں
تو اپنے جسموں کو پالتے ہیں
شعیب کیانی
Ещё видео!