۔محمد عبدہ
پاکستان کے قیام میں علماء حق کا کردار ۔
مولانا مفتی محمد شفیع، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا محمد طاہر قاسمی، مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی، مولانا عبدالرؤف داناپوری، مولانا آزاد سبحانی، مولانا غلام مرشد اور دوسرے بےشمار علما نے نومبر 1945 میں کلکتہ میں ایک علما کانفرنس منعقد کی جس میں جمعیت علما اسلام کی بنیاد رکھی گئی اور مولانا شبیر احمد عثمانی کو صدر منتخب کیا گیا۔ کانفرنس نے متفقہ طور پر یہ اعلان کیا کہ مسلم لیگ کی حمایت کی جائے۔ اور ایک قرارداد کے ذریعے مسلمانوں سے اپیل کی کہ مسلم لیگ کے علاوہ کسی کو ووٹ نا دیا جائے۔
26 دسمبر 1945 کو دیوبند کے عظیم الشان جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا شبیر احمد عثمانی نے کہا۔ “تحریک خلافت کے بعد سے میں سیاست سے کنارہ کش ہوں۔ لیکن عرصہ دراز کی کاوشوں اور غور و خوض کے بعد میں اس نتیجہ ہر پہنچا ہوں کہ اگر حصول پاکستان کے لیے میرے خون کی ضرورت ہوتو میں اس راہ میں اپنا خون بہانا باعث افتخار سمجھوں گا اور اس سے ہرگز دریغ نہیں کروں گا۔ اس ملک میں ملت اسلامیہ کا وجود بقا اور باعزت زندگی قیام پاکستان سے وابستہ ہے۔ میں اپنی زندگی کو کامیاب سمجھوں گا اگر اس مقصد کے حصول میں کام آجاؤں”۔
اسی بات کا اعادہ مولانا شبیر احمد عثمانی نے قیام پاکستان سے ایک سال قبل لاہور کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا کہ “ہمارا عقیدہ ہے کہ تقدیر نے ہمیں پاکستان کے تحفظ کے لیے منتخب کیا ہے۔ اور یہ چیز آئندہ نسلوں کو انعام میں ملے گی”۔ (حیات محمد علی جناح۔ مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی)۔ مولانا تھانوی 1938 میں مفتی حسن کے ہمراہ امرتسر تشریف لائے۔ شہر کے بہت سارے لوگ جمع ہوگئے اور کانگریس مسلم لیگ اور جناح کی ذات پر بحث شروع ہوگئی۔
مولانا تھانوی نے فرمایا۔ “کئی کم فہم مسلمان جناح کے خلاف پراپیگنڈہ کررہے ہیں کہ وہ رجاہ پسندی کے طلب گار ہیں۔ ایسی بات کرنے والوں کو شرم آنی چاہیے۔ جناح رجاہ پسند ہوتے تو عہدے کی کوشش کرتے۔ جس کا ملنا ایسے قابل شخص کے لیے بہت ہی سہل ہے۔ لیکن جناح نے کبھی بھی اس کی خواہش نہیں کی۔ وہ مخلص اور دیانتدار مسلمان ہیں اور مسلمانان ہند کے قابل ترین شخص ہیں۔ ان کی کوششیں یقیناً کامیاب ہوں گی۔ باری تعالی مسلمانوں کی علیحدہ ریاست کے قیام کا سہرہ جناح صاحب کے سر باندھیں گے۔ میں نے اپنے تمام خلفا متعبین اور مریدین کو کہہ دیا ہے کہ ہر بات میں جناح کا ساتھ دیں۔ (تعمیر پاکستان اور علمائے ربانی۔ احسان قریشی صابری کی روایت)۔
قرارداد پاکستان سے پہلے 1939 میں جب مسلم لیگ تنظیمی منصوبے کے تحت صوبوں و ضلعوں میں ازسر نو اپنی شاخیں قائم کررہی تھی۔ مولانا تھانوی نے مولانا شفیع اور دیوبند کے دوسرے اکابر علما کے مشورے سے فتوی دیا کہ “گو مسلم لیگ متقی جماعت نہیں سیاسی جماعت ہے۔ اسلام کی حفاظت اور مخالفین اسلام سے مدافعت کا مقصود مشترک ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے باہمی اختلافات کو بھلا کر سب کلمہ گو متحد ہوجائیں۔ اور جو متعصبین آزادی ہند کے بعد ہندوستان سے اسلام کو مٹا دینا چاہتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں مسلم لیگ کی حمایت کریں۔ (ضمیمہ تنظیم المسلمین)۔
مفتی محمد حسن کہتے ہیں۔ اپنی وفات 19 جولائی 1943 سے پندرہ روز قبل مولانا تھانوی نے مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا ظفر احمد عثمانی سے کہا “حق تعالی جناح کو کامیابی دیں گے۔ انشاءالله 1940 کی قرارداد کی فتح ہوگی۔ آپ دونوں جناح کے پلان کے مطابق کام کریں۔ کیونکہ مشیت ایزدی یہی ہے کہ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ خطہ ء معروضی وجود میں آئے گا۔” مولانا عثمانی فرماتے ہیں۔ “اگر مسلم لیگ ناکام ہوگئی تو قوی اندیشہ ہے کہ ایک سچا اصول ہی شاید ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائے۔ اور مسلمانوں کے قومی و سیاسی استقلال کی آواز پھر کبھی ہندستان میں سنائی نہ دے۔
پاکستان ایک اصطلاحی نام ہے۔ یہ نام سن کر کسی کو بھی غلط فہمی یا خوش فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ اس خطہ میں فوراً بلا تاخیر خلافت راشدہ یا خالص قرآنی و اسلامی ریاست قائم ہوجائے گی۔ ضرورت سے زیادہ امیدیں باندھنا یا توقعات دلانا کسی عاقبت اندیش حقیقت پسند کے لیے زیبا نہیں۔ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان ایک ایسا ابتدائی قدم ہے جو انجام کار قرآنی اصول کے مطابق حاکم آلحاکمین کی حکومت عادلہ قائم ہونے پر کسی وقت منتہی ہوسکتا ہے۔ (عصر جدید کلکتہ 21 جون 1945)
1945)۔علامہ شبیر احمد عثمانی جنہیں پاکستان کی حمایت کے جرم میں قتل کی دھمکیاں دی جارہی تھیں۔ شاہی مسجد لاہور میں خطاب کرتے ہوئے کہا۔ “بھائیو اگر میں اسلام اور پاکستان کے راستے میں قتل کردیا جاؤں تو الله تعالی اور رسول کریم ص کے نام پر آپ سے التجا کرتا ہوں میری نعش کسی بھی حال میں ہندستان نہ بھیجنا مجھے ہر حال میں قلب پاکستان میں دفن کردینا۔ کیونکہ پاکستان ہی سرزمین ہندستان کے مقابلے میں مقدس و مطہر ہوگی۔ (حیات شیخ السلام)۔ اسلامیہ کالج لاہور میں جنوری 1946 کو منعقدہ علما کانفرنس کی صدرات مولانا عثمانی نے کی جبکہ شیعہ عالم سید محمد علی ، حافظ کفایت حسین ، مولانا جمال فرنگی محلی، مولانا ہدایت الله فرنگی محلی، مولانا عبدالحامد بدایونی، مولانا ابراہیم سیالکوٹی، مولانا راغب احسن، پیر قمرالدین پیر سیال شریف، پیر رضا شاہ گیلانی، پیر محمد حسین شیر گڑھ سٹیج پر موجود تھے۔سندھ میں پیر غلام مجدد سرہندی اور پیر محمد ہاشم جان سرہندی پیش پیش تھے۔ سرحد میں مسلم لیگ کا ریفرنڈم جیتنے میں اہم کردار پیر محمد عبداللطیف زکوڑی شریف کا تھا۔ پیر آف مکھڈ، پیر آف مانکی شریف مسلم لیگ کےلیے اپنے خطابات میں حمایت کا اعلان کرتے رہے۔ صوبہ سرحد کے پاکستان کے ساتھ اور سلہٹ کے بنگال کے ساتھ ریفرنڈم میں مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا ظفر احمد عثمانی نے شب و روز کام کیا۔ سلہٹ کے ریفرنڈم کا نتیجہ پاکستان کے حق میں نکلا تو مولانا ظفر عثمانی سجدے میں گر گئے۔
[ Ссылка ]
Ещё видео!